مجید نظامی ایک یونیورسٹی …
آج بانی نوائے وقت ، بابائے صحافت جناب مجید نظامی مرحوم کی ساتویں برسی منائی جا رہی ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے۔ آپ 27 رمضان المبار ک 26 جولائی 2014 باذن اللہ اس دار فانی سے رخصت ہوئے تھے اور اپنی بے پناہ علمیت ،قابلیت ،خبریت ،یادیںاور معیار چھوڑ کر کچھ اس ادا سے رخصت ہوئے کہ گلشن صحافت اجڑ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے فن صحافت کا کچھ ایسا حق ادا کیا جس بنا پر اس گلشن کی فضا انھیں صدیوں یاد کرے گی۔ انھوں نے بطور ایک صحافی کے عزت و عظمت اور وقار و خودادری کے وہ بلند معیار قائم کئے کہ اب اس بلندی تک پہنچنا بہت مشکل اور گراں بن چکا ہے۔ انھوں نے جب بھی اپنا قلم اٹھایا ملک و ملت ،اسلام اور نظریہ پاکستان کی پاسداری میں اٹھایا حتی کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ ان کے نظریات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انھوں نے شعبہ صحافت کے وقار کو اس حد درجہ بلند کیا کہ اگر ان کے پرتو میں ایک صحافی کو جانچا جائے تو وہ بڑا با خبر ،ملک و ملت اور اسلام کا بہت بڑا پاسدار اور مقدس اعلیٰ اور حساس اداروں کے وقار کو سربلاند رکھنے والا ایک خوبصورت کردار نظر آتا ہے ۔آپ کی صحافتی زندگی میں اقدار سے وفاداری کی اس حد درجہ خوشبو آتی ہے کہ آپ نے ہمیشہ اسلام ،نظریہ پاکستان اور قانون کی پاسداری کرنے والے مشاہیر کی عظمتوں کے ہمیشہ گیت گائے ہیں۔ آپ پاکستان کے ہمیشہ بے لوث سپاہی بن کر رہے ،آپ نے ہمیشہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے ہر سطح اور ہر طبقہ کے شہداء کے خون کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے اس مقدس نذرانوں اور قربانیوں کے وقار کو ہمیشہ سربلند کیا ۔آپ عالم اسلام اور جدو جہد آزادی کشمیرکے بیباک اور بے لاگ سفیر تھے ۔اہل کشمیر معترف تھے کہ مجید نظامی نے جہاد کشمیر میں عملی طور پر ہی نہیںمالی طور پر بھی حصہ لیا یہاں تک کہ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی نے بھی یہ کہہ دیاکہ تحریک آزادی کشمیر میں آگاہی فراہم کرنے میں نوائے وقت کا کلیدی کردار ہے ۔آپ کی تنقید حکومتوںکے لیے درست راہ متعین کرتی تھی کیونکہ آپ کا اوڑھنا بچھونا پاکستان اور امت مسلمہ کی سالمیت اورمقصد حیات قائدین تحریک پاکستان کے مشن کی آبیاری تھا۔ آپ ایک ایسے با وقار اور خوددار انسان تھے کہ آپ نے اپنے پورے دور صحافت میں ایک خوددار ، وضع دار اور ایک ذمہ دار مصلح کے طور پر صحافتی خدمات سر انجام دیں اور وقتی مفادات اور لالچ کی خاطر کبھی اپنی پرواز سے تھک کر نیچے نہیں گرے ۔آپ نے اپنی انسانیت کے معیار کو ہمیشہ بلند ترین سطح پر رکھا اور چڑیوں کی طرح نہ دانوں پر گرے اور نہ کبھی کسی صنف نازک کے گیسوئوں کے اسیر ہوئے ۔نہ خائف ہو کر قلم کے وقار کو بیچا ،اور نہ کسی منصب کی چاہ میں قلم فروشی یا ضمیر کا سودا کیا۔ اگر آپ کی صحافتی اور ذاتی زندگی کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے خدائے لم یزل نے انھیں شعبہ صحافت میں گراں قدر خدمات سرانجام دینے کے لیے چن رکھا تھا ۔انھوں نے نہ تو کبھی کسی ریٹنگ وغیرہ کی ہوس میں اپنی پبلی کیشنز کے معیار کو گرایا اور نہ ہی کسی قسم کا بازاری مشن اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر نوائے وقت کے مستقل لکھاریوں کی شخصیات کو پرکھا جائے تو وہ بھی یقینی طور پر اعلیٰ درجے کے بلند اور بہترین انسان ثابت ہوں گے۔ مجید نظامی اس دار فانی سے بلاشبہ رخصت ہوچکے ہیں مگر اپنے کارہائے نمایاں کی شکل میں وہ ہم میں موجود ہیں ۔آج ان کے رفقاء اور نائبین ان سے حاصل کردہ تربیت کی بدولت ان کے اداروں کو زندہ و پائندہ رکھے ہوئے ہیں ۔نوائے وقت ایک اخبار کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عظیم تعمیری اور نا گزیر تحریک کا نام ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ وہی اخبار ہے جو وقت کی ضرورت اور نوا محسوس کرتے ہوئے حضرت قائد اعظم نے اس کے اجراء کی خواہش ظاہر کی تھی اور پھر زمانوں نے دیکھا کہ یہ نوائے وقت نہ صرف ہر وقت کی ضرورت اور نوا بنا بلکہ اس کو دیکھ کر ہر دور میں بڑی عزت و عظمت پانے والے صحافیوں نے نہ صرف اس سے سیکھا بلکہ وہ بھی نوائے وقت بن کر امر ہو گئے ۔جناب حمید نظامی صاحب نے ایک ایسے رنگ ڈھنگ سے نوائے وقت کی بنا ڈالی کہ پھر بعد ازاں جناب مجید نظامی صاحب نے اس مشن کو چار چاند لگا دئیے اور واضح کر دیا کہ ریاستوں کی جغرافیائی سرحدوں کو ہی جانثار محب وطن سپاہیوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نظریاتی سرحدوں کو بھی باکردار ، باصلاحیت اور با وصف جانثار مفکروں اور لکھاریوں کی ضرورت ہوتی ہے اور مجید نظامی قلم کے پاسدار اور بے خوف سپاہی تھے لہذا تمام آنے والے صحافیوں اور دانشوروں کو ان کے تجربے ،نظریات اور تخلیقات سے فیضیاب ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنے اندر ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے ۔آج ان کی رحلت کے بعد محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ اس مشن کو لیکر رواں دواں ہیں جبکہ جناب سعید آسی صاحب ایک عرصہ سے نوائے وقت کے روح رواں اور ہردلعزیز شخصیت بن چکے ہیں ۔نوائے وقت ایک ایسی یونیورسٹی ہے کہ جس کے مالکان اگر چانسلر ہیں تو سعید آسی صاحب اس کے وائس چانسلر ہیں ۔جنھوں نے اخبار کے معیار اور وقار کو ہمیشہ زندہ رکھا ہے اور صحافت کے جس معیار کو نظامی مرحومین نے قائم کیا تھا آپ اس کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں ۔بحیثیت ایک لکھاری کے میں نے نوائے وقت سے وابستگی کے سبب جو تربیت پائی ہے وہ ایک پیغام ہے جو یہ ہے ۔۔۔۔ایسا چلن چلو کہ کریں لوگ آرزو ۔۔۔ اور ایسا رہا کرو کہ زمانہ مثال دے ۔