شہباز شریف لندن جائیں یا جیل،حکومت کیلئے درد سر بنے رہیں گے
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
شہباز شریف پاکستان میں رہیں یا لندن چلے جائیں وہ جیل میں ہوں یا آزاد گھوم پھر رہے ہوں وہ ہر صورت حکومت کے لیے درد سر بنے رہیں گے۔ چونکہ سر درد پاکستان تحریکِ انصاف کا ہے اور علاج کے لیے کوشش بھی حکومت نے کرنی ہے۔ لیکن "سر درد شریفیہ" کے لیے حکومت کی جانب سے اب تک کی جانے والی کوششیں بے سود ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی اس سے افاقہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ شہباز شریف کی رہائی کے بعد لندن روانگی تو حکومت نے روک دی ہے لیکن اس عمل سے بظاہر حکومت کو فائدہ نہیں ہوا۔ ویسے لندن بیٹھے شہباز شریف پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خطرہ کم کرنے کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت انہیں پاکستان میں رکنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لندن بیٹھ کر بھی وہ زیادہ متحرک سیاست کر سکتے ہیں۔ سٹیک ہولڈرز سے بات چیت اور اپنی جماعت کے بہتر سیاسی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنی جماعت کی طاقت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو علم ہے کہ لندن میں بیٹھے شہباز شریف کس نوعیت مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساری جماعت ان کی روانگی کو روکنے میں مصروف ہے۔ پی ٹی آئی شہباز شریف کو لندن جانے سے روک بھی لے تو انہیں بہت بڑی سہولت نہیں مل سکتی۔ وہ یہاں رہ کر بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہیں گے۔ مختلف ممالک کے سفیروں سے ملیں گے۔ میڈیا سے مسلسل رابطے میں رہیں گے۔ حکومتی خامیوں پر بات چیت کے لیے بہت مواد موجود ہو گا وہ روزانہ کی بنیاد پر حکومتی فیصلوں پر تنقید کر کے عوامی سطح پر مشکلات پیدا کریں گے۔ عوامی جذبات کو استعمال کرنے کا فن انہیں آتا ہے۔ حکومت کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مہنگائی اور وزراء کی غیر ضروری بیان بازی شہباز شریف کو متحرک رکھنے کے لیے کافی ہے۔ یوں میاں شہباز شریف کا پاکستان میں رکنا یا لندن پرواز کرنا دونوں صورتوں میں حکومت کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ شاید پاکستان تحریکِ انصاف کو اب یہ احساس ہو کہ لگ بھگ پونے تین سال عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کے بعد سیاسی حریفوں کا مقابلہ صرف بیانات یا وعدوں اور دعووں سے نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کے مسائل نظر انداز کر کے پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی مخالفین کو مضبوط کیا ہے۔ اب شہباز شریف سمیت تمام مخالف سیاسی جماعتیں حکومت کی اس خامی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو سیاسی مخالفین کا مقابلہ عوام میں رہ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔ منتخب نمائندوں کے لیے سب سے زیادہ اہمیت عوامی مسائل کو دینا ہی سیاسی نظام کا حسن اور جمہوریت کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔ جو سیاسی جماعت عوامی مسائل کو نظر انداز کرے، قومی خزانے کو نقصان پہنچائے یا پھر ملک و قوم کے مفادات کو نظر انداز کرے، انتخابات کے وقت ووٹرز بھی انہیں بھول جاتا ہے۔ جمہوری نظام کے تسلسل میں سیاسی جماعتوں کو بھی کچھ سیکھ لینا چاہیے۔