گرین سگنل ملنے کے باوجود پی سی بی کی بد انتظامی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
لاہور(تجزیہ حافظ محمد عمران)ابو ظہبی میں پاکستان سپر لیگ کے باقی ماندہ میچز کے انعقاد کا گرین سگنل ملنے کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کی بد انتظامی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، مسلسل دوسرے سال پی ایس ایل میچز دو حصوں میں تقسیم ہونے سے بیرونی دنیا میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پی سی بی نے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی لیگ ملتوی کرنے کیلئے آخری راستہ سب سے پہلے استعمال کیا۔ پی سی بی کی بد انتظامی کو کرونا وائرس کے پیچھے چھپایا نہیں جا سکتا۔ کرونا وائرس کے بہانے سے شائقینِ کرکٹ کو تو بہلایا جا سکتا ہے لیکن کھلاڑیوں، آفیشلز اور لیگ سے منسلک ماہرین اور پاکستان سپر لیگ پر گہری نگاہ رکھنے والے غیر ملکیوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ فرنچائز کرکٹ سے جڑے سٹیک ہولڈرز جانتے ہیں کہ رواں برس پی ایس ایل کو کرونا سے زیادہ کرکٹ بورڈ کی کمزور فیصلہ سازی اور ناقص انتظامات نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے جب لیگ کے میچز ہو رہے تھے اس وقت کرونا کا پھیلاؤ بہت زیادہ نہیں تھا، فروری مارچ میں بہتر حکمت عملی، انتظامی معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا تو پاکستان سپر لیگ التواء کا شکار نہ ہوتی۔ چھٹے ایڈیشن کے آغاز پی سے بائیو سکیور ببل کی خلاف ورزیوں پر بورڈ حکام نے آنکھیں بند کیے رکھیں، بائیو سیکیور ببل کی خلاف ورزیوں پر برتی جانیوالی نرمی نے لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ برسوں کی محنت، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بہترین انتظامات کے باعث لیگ پاکستان واپس آئی تھی لیکن بورڈ کی موجودہ انتظامیہ کے غلط فیصلوں اور غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے پی ایس ایل ایک مرتبہ پھر متحدہ عرب امارات میں کھیلی جائیگی۔ پی ایس ایل کے بیرون ملک جانے کو صرف کرونا وائرس کے سر نہیں ڈالا جا سکتا اس میں پی سی بی حکام کے غیر پیشہ وارانہ رویے کا ہاتھ کرونا سے زیادہ ہے۔ رواں سال لیگ ملتوی ہونے کے بعد فرنچائز مالکان نے بورڈ حکام کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ میڈیکل شعبے کے سابق سربراہ ڈاکٹر سہیل سلیم سے لیے گئے جبری استعفیٰ اور نام نہاد فیکٹ فائنڈنگ کمشن نے بورڈ حکام کی ناقص حکمت عملی پر مہر ثبت کر دی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ابو ظہبی میں لیگ کے بقیہ میچز کے انعقاد کیساتھ ساتھ جن افراد کی وجہ سے پاکستان سپر لیگ ملتوی ہوئی انہیں سامنے لانا چاہیے۔ لیگ کو نقصان پہنچانے والے افسران کو بچانے کے بجائے ان کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ پی ایس ایل کے معاملے میں نہایت حساس اور محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا، کامیاب اور مقبول برانڈ ہے، یہ قومی سرمایہ ہے، یہ لیگ شخصیات، افسران اور کھلاڑیوں سے بڑھ کر ہے‘ اسے نقصان پہنچانے والوں سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔