زندگی کا سفر اور جہد مسلسل
’’اللہ کسی کی ماں کو اس سے جدا نہ کرئے، آٹھ دہائیوں کے گزرنے کے بعد بھی ماں کی موت کا دکھ ہرا ہے،سینہ پھٹا جاتا ہے اور آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ میں اب بھی کہیں چھپ کر ان آنسوئوں میں اپنی ماں کو ڈھونڈتا ہوں، اسکے لمس کو محسوس کرتا ہوں، اس کی خوشبو اب بھی نس نس میں باقی ہے اور جب تک زندہ ہوں اس کا لمس اور اسکی خوشبو جدا نہیں ہو سکتی‘‘ دل کو چیرتی اور آنکھوں کو تر کرتی ہوئی یہ دلگداز تحریر ایک یہ ایک ایسے شخص کی خود نوشت سے اقتباس ہے جس کی ماں اور باپ دونوں جب وہ نو دس برس کا بچہ تھا یکے بعد دیگرے اسے داغِ مفارقت دے گئے جسکے بعد وقت اور حالات کی تپتی شاہراہ پر زندگی اپنی پوری ہیبت اور بے رحمی کیساتھ اسکے سامنے کھڑی تھی۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے 1946ء کی ایک دردناک کہانی ہے جب ہندوستان ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا اور ہر گزرتے دن کیساتھ مسلمانوں کیلئے صورتحال انتہائی نازک اور بدتر سے بدتر ہوتی جارہی تھی۔ ان نامساعد حالات میں ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت کے سائے سے محروم اس چھوٹے سے بچے نے قیام پاکستان کے بعد اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ بذریعہ ٹرین دہلی سے کراچی ہجرت کا قصد کیا اور بے سرو سامانی کے عالم میں ہندو اور سکھ بلوائیوں کی قتل وغارت سے بچتے بچاتے آگ اور خون کا دریا عبور کرکے کراچی پہنچا۔ سخت بخار کے ساتھ ننھی سی جان، رہنے کیلئے کوئی مناسب جگہ نہ ٹھکانہ، نیاشہر، بیماری، بدحالی، پریشانی، ایک دوسرے سے بچھڑے ہوئے خاندانوں کے خاندان اور ہر طرف اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے لوگوں کی آہ و بکا جیسے قیامت خیز مناظر۔ یہ تھے وہ ابتر حالات و واقعات جن میں دس گیارہ برس کے یتیم بچے نے جسے آج لوگ ارشاد حسن خان کے نام سے جانتے ہیں۔ اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا اور پھر اپنے عزم، مسلسل محنت اور حوصلے سے کامیابیوں کی مختلف منزلیں طے کرتا ہوا چیف جسٹس آف پاکستان کے کلیدی عہدے پر فائز ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ ’’ارشاد نامہ‘‘ کا مطالعہ کرنے سے پہلے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان کی دکھوں، تکلیفوں اورجدوجہد سے بھرپور زندگی کے اس پہلو سے واقف نہیں تھا اور انہیں 12اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار میں آنیوالے جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی حیثیت دیکر انہیں دی گئی مہلت اور آئین میں ترمیم کرنے کے دیئے گئے۔ اختیارکے حوالے سے ہی جانتا تھا۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھنے کے بعد میں ابھی تک گہرے دکھ اور حیرانی کی ملی جلی کیفیت میں ہوں کہ اس کتاب کے مصنف ارشاد حسن خان اپنی زندگی میںکس قدر مشکلات اور قربانیوں سے گزر کرچیف جسٹس آف پاکستان کے مقام تک پہنچے۔ انکی خودنوشت میںایک طرف اگر حساس دلوں کو چیرتی حالات کی پُردرد تصویریں ہیں تو دوسری طرف انہوں نے جس ثابت قدمی اور حوصلے سے زندگی کے سفر میں ناموافق حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے لئے کامیابیوں اور خوشیوں کو کشید کیا پڑھنے والوں کیلئے اس میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ یوں تواس کتاب میں قانون اورسیاست کے طلبہ سے لیکر مجھ جیسے ایک عام آدمی کیلئے بھی پڑھنے اور سیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ذاتی طورمجھے اس کتاب میں مصنف کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کا یہ ارشادہے کہ ’’اگر آپ فیصلہ کریں کہ آپ نے یہ کرنا ہے تو آپ وہ کرسکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں، آپ قدم بڑھائیں منزل خود بخود آپ کی طرف بڑھنا شروع کردیگی‘‘۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ ایک شخص کی زندگی کی کہانی ہے جس کی ساری عمر انتھک محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے جس میں کسی جگہ وہ ہمیں ایک ہونہار طالب علم کے روپ میں علم کی جستجو اورجنون لے کر بجلی کے کھمبوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھتا نظر آتا ہے تو کسی جگہ وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کیلئے سکول اور کالج کے سربراہوں سے اپنے لئے خصوصی رعایت لیتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں لوگ زندگی میں کوئی چھوٹا سا عہدہ یا مقام ملنے پر بھی اپنا ماضی بھول جاتے ہیں‘ وہاں چیف جسٹس آف پاکستان جیسے اہم عہدے پر فائز رہنے والے کسی بھی شخص کا اپنی غربت اور کسمپرسی کے دنوں کافخر سے اظہار کرنا یقینا ایک قابلِ ستائش عمل ہے جس میں نئی نسل کیلئے ایک پیغام بھی ہے کہ اگر اللہ پر ایمان اور مصمم ارداے کے ساتھ محنت کی جائے تو زندگی کی دوڑ میں کوئی شخص بھی راستے کی بڑی سے بڑی رکاوٹ کو عبور کر کے کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ آخر میںظفر علی شاہ کیس کے حوالے سے مصنف کے فیصلے پر تنقید کرنیوالوں کیلئے اُنکی اپنی وضاحت پیش کرونگا اس پر حتمی رائے تو قانونی ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں اسے آسانی سے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کتاب میں آپ لکھتے ہیں ’’جنرل مشرف کو تین سال میں انتخابات کا پابند مسلم لیگ کے وکیل خالد انور، معاون دوست ایس ایم ظفر اور دیگر وکلاء کے دلائل کی روشنی میں دیا گیا۔ مشرف حکومت انتخابات سے فرار چاہتی تھی لیکن ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کی بدولت انہیں انتخابات کرانے پڑے اور یوں اکتوبر 2002 ء میں ایک جمہوری سفر کا آغاز ہوا جو آج بھی جاری ہے کیونکہ جنرل مشرف کو اس شرط کے ساتھ قانونی حیثیت دی گئی کہ انتخابات 12ا کتوبر 2002ء سے قبل کروائے جائیں اور اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل کیا جائے‘‘۔ اسی حوالے سے وہ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں ’’12 اکتوبر کے مارشل لاء سے متعلق ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو میری زندگی کے حالات کے ساتھ رکھ کر پڑھیں تو کوئی راست فکر یہ ماننے کو کو تیار نہیں ہوگا کہ یہ فیصلہ کسی دنیاوی لالچ، طمع یا دبائو کے تحت کیا گیا ہوگا۔‘‘