’’اہل رحیم یار خان وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے دورہ کے منتظر‘‘
احسان الحق،رحیم یار خان
ihsan.nw@gmail.com
منگل اٹھارہ مئی کی شب جہانگیر ترین اور انکے ’’دوست‘‘ اپنے ہم خیال دوستوں کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں شائد بوتل سے وہ’’ جن‘‘ نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ جسکی طویل عرصے سے سیاسی پنڈت توقع کر رہے تھے اور شائد یہی وجہ تھی کہ ا س عشائیے کے موقع پر شیڈول کے مطابق نئی سیاسی جماعت کی بجائے صرف ’’جہانگیر ترین ہم خیال گروپ‘‘پر اکتفاء کیا گیا اور یوں جنوبی پنجاب بھی وہ نئی سیاسی کروٹ بھی نہ لے سکا کہ جس کی یہاں کے سیاسی پنڈت توقع کر رہے تھے ۔ جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے اس عشائیے میں چالیس سے زائد اراکین اسمبلی کی شرکت کا دعویٰ کیا جا رہا تھا مگر اطلاعات کے مطابق اس موقع پر صرف اکتیس اراکین اسمبلی نے شرکت کی اور کم حاضری کے باعث شرکاء سے عشائیے کے بارے درست معلومات افشاء نہ کرنے اور جہانگیر ترین سے وفاداری کا حلف لیا گیا۔جہانگیر ترین نے کچھ عرصہ قبل جب وزیر اعظم عمران خان سے اختلافات اور اپنے خلاف مبینہ طور پر کی جانے والی انتقامی کارروائیوں پر وزیر اعظم اور انکے قریبی دوستوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے اپنا سیاسی پاور شو کرنے کا فیصلہ کیا تو اس گروپ کی پہلی انٹری سے ہی یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ جہانگیر ترین نے اپنا علیحدہ گروپ بنانے کا فیصلہ کافی عرصہ قبل ہی کر لیا تھا کیونکہ انکے گروپ میں رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیشتر ایسے اراکین اسمبلی شامل تھے کہ جنہیں عام انتخابات2018ء میں جہانگیر ترین نے ہی پارٹی ٹکٹیں لے کر دیں تھی اور اس وقت جہانگیر ترین ،عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی ہونے کے باعث پورے جنوبی پنجاب میں پارٹی ٹکٹیںدینے کا کلی اختیار جہانگیر ترین کے پاس تھا اور یوں اس وقت جہانگیر ترین اپنے دیرینہ سیاسی حریف شاہ محمود قریشی کو پچھاڑنے میں نہ صرف مکمل طور پر کامیاب رہے تھے بلکہ وہ شاہ محمود قریشی کو آزاد حیثیت میں ان انتخابات میں ایم پی اے کی نشست پر حصہ لینے والے یک عام سے سیاسی ورکر کے ہاتھوں شکست سے دو چار کر اکے قریشی صاحب کے وہ سارے خواب چکنا چور کرنے میں بھی کامیاب رہے جو شاہ محمود قریشی وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بارے میں دیکھ رہے تھے۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی حمایت سے کوئی بھی پارٹی مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تھی جبکہ قبل ازیںیہ مقام صرف وسطی اور اپر پنجاب سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو حاصل تھا۔جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو قومی دھارے میں جو حیثیت اور مقام حاصل ہوا ہے اس کا سارا سہرا اگر جہانگیر ترین کے سر پر نہ باندھا جائے تو یہ زیادتی ہو گی۔جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے اگر قومی اور صوبائی بجٹ پاس کرانے میں پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دیا تو نئے عام انتخابات ناگزیر ہو سکتے ہیں اور پھر رحیم یار خان سمیت پورے جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین کو ایک بار کلیدی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور نئے انتخابات میں پی ٹی آئی کو کیا ’’الیکٹ ایبلز‘‘دستیاب ہو سکیں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جہانگیر ترین ہم خیال گروپ آئندہ عام انتخابات میںن لیگ سے سیاسی پینگیں بڑھا سکتی ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں یہ نیا متوقع سیاسی اتحاد جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کو ٹف ٹائم دینے کے ساتھ ساتھ اس متوقع اتحاد کی خبروں نے ن لیگ کے ان ٹکٹ ہولڈرزکے کان بھی کھڑے کر دیئے ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہیں اور خاص طور پر پچھلے تین سالوں سے اپنی جماعت سے اس امید پر مکمل وفاداری نبھا رہے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں وہ اپنی پارٹی ن لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تاہم اب ن لیگ کے جہانگیر ترین سے متوقع اتحاد کی صورت میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رحیم یار خان سمیت پورے جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے موجودہ ایم این ایز اور ایم پی ایزاس نئے اتحاد کے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کے کئی شہروں میں ن لیگ میں بغاوت بھی ہو سکتی ہے اور باغی ن لیگی اراکین پی پی پی کی حمایت سے اس نئے اتحاد کے مقابلے میں نئے عام انتخابات کے اکھاڑے میں اتر سکتے ہیں۔نئے عام انتخابات کب ہوتے ہیں اور ان انتخابات میں جہانگیر ترین گروپ کا کیا کردار ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم فی الحال جہانگیر ترین گروپ نے طبل جنگ بجا کر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے لئے کافی حد تک سیاسی مشکلات پیدا کر دی ہیںاور وفاقی و صوبائی بجٹ پاس ہونے کے موقع پر جہانگیر ترین گروپ کا اصل کردار سامنے آنے کے بعد ہی ملک میں نئی سیاسی سمت کا تعین ہو سکے گا۔
2018ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد بقول پی ٹی آئی کی قیادت کے اب جنوبی پنجاب کے عوام کو ’’تخت لاہور‘‘ سے نجات ملنے کے باعث رحیم یار خان سمیت پورے جنوبی پنجاب کے لئے ترقیاتی فنڈز کی بارش کر دی جائے گی جس سے جنوبی پنجاب کے عوام کی برسوں پرانی محرومیاں ختم ہو سکیں گی ۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے پچھلے اڑھائی،تین سالہ دور حکومت کا اگر جائزہ لیا جائے تو بات بالکل صاف نظر آ رہی ہے کہ ضلع رحیم یار خان انکی ’’نظر کرم‘‘ سے ابھی تک محروم ہے کیونکہ ان کے دور حکومت کے دوران رحیم یار خان ابھی تک کسی بڑے ترقیاتی پیکج سے محروم ہے اور یہ بات اس وقت زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے جب پنجاب کے صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور وفاقی وزیر صنعت و پیداوارمخدوم خسرو بختیار کا تعلق بھی رحیم یار خان سے ہو لیکن یہ ضلع پھر بھی فنڈز سے محروم ہو۔ملکی سیاست میں جہانگیر ترین گروپ بننے کا اگر سب سے زیادہ نقصان ضلع رحیم یار خان کو پہنچا ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا کیونکہ اس گروپ میں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے دو ایم این ایز اور ایک ایم پی اے کی شمولیت کے باعث وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا دورہ رحیم یار خان کئی بار ملتوی کیا اور پھر کئی بار یہاں آنے کا شیڈول جاری کیا لیکن مخدوم خسرو بختیار کی انتھک کوششوں کے باوجود جب منحرف اراکین اسمبلی نے جہانگیر ترین گروپ نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے دورہ رحیم یار خان پر نہ آنے کا فیصلہ کیا جس کے باعث رحیم یار خان کے عوام اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز سے ابھی تک محروم ہیںجس کے باعث یہاں کے عوام میں تشویش پائی جا رہی ہے اس لئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو چاہیے کہ وہ یہاں کے چند اراکین اسمبلی کی جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کی سزا یہاں کے عوام کو نہ دیں کیونکہ انہوں نے ان اراکین اسمبلی کو نہیں بلکہ عمران خان کو ووٹ دیئے تھے اور مجوزہ ترقیاتی فنڈز لینا یہاں کے عوام کا حق ہے اس لئے ضلع رحیم یار خان کے عوام کا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے مطالبہ ہے کہ جلد رحیم یارخان آکر یہاں کے عوام کو انکا حق دیں جس کا اعلان وہ کئی بار کر چکے ہیں۔
19 05 2021