مسائل میں گھرے ہوئے کراچی شہر کا نوحہ
امین یوسف
9ماہ پہلے وزیر اعظم نے کراچی کیلئے 11 سو ارب کے پیکیج کااعلان کیا، صوبائی رابطہ عملدرآمد کمیٹی قائم کی، کوئی عملی منصوبہ سامنے نہیں آیا
چند علاقے چھوڑ کر پورا شہر کھنڈر ، دنیا کے پانچویں بڑے اور ملک کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر کا حسن تباہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔یہ نوحہ ہے کراچی کا اور یہاں کے ہر باسی کا۔عوام کا سوال ہے کیا کراچی کو کوئی دیکھنے والا ہے، اس کے درد کا درماں کرنے والا ہے، اس کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے والا ہے، اس شہر کا کوئی وارث ہے، کیاکوئی یہاں کے مسائل حل کرنے والا ہے، یا اس شہرکو لوٹنے والوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیاہے۔ ہم نے بلند و بانگ دعوے سنے ہیں کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، اقتصادی شہہ رگ، سب سے بڑا شہر ہے، منی پاکستان ہے، واحد بندرگاہ ہے، ملک کو 70فیصد ریوینیو دیتا ہے، یہاں کا تجارتی پہیہ چلتا ہے تو ملک چلتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ہم نے سنا تھا کہ وزیراعظم نے کراچی کے معاملے پر آئینی و قانونی آپشنز پر کام کرنے کا ٹاسک وزارت قانون کے سپرد کر دیا گیا۔وزارت قانون میں کام کا آغاز کر دیا گیا،کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے جلد آئینی و قانونی حل دیا جائے گا، خیال رہے سپریم کورٹ کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کراچی اس وقت ایک یتیم شہر بنا ہوا ہے، اگر کراچی تباہ ہوا تو پاکستان تباہ ہوگا، وفاق کراچی کو بچانے کیلئے مختلف قانونی اور آئینی آپشن سوچ رہا ہے، یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کیا اقدامات ہو سکتے ہیں۔لیکن دو سال گزر گئے نہ وہ قانونی آپشن سامنے آیااور نہ ہی کوئی قانون۔یہ 9ماہ پرانا قصہ ہے جب وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کیلئے 11 سو ارب روپے کے پیکیج کااعلان کیا تھااور شہر کے مسائل کے حل کیلئے صوبائی رابطہ عملدرآمد کمیٹی قائم کی تھی، اس کمیٹی پیکج کے تحت منصوبوں کی نگرانی کرنا تھی۔ گذشتہ 9ماہ میں کمیٹی کے کئی اجلاس تو ہوئے لیکن اب تک کوئی منصوبہ عملی طور پر عوام کے سامنے نہیں آیا ہے۔وزیراعظم کے اعلان کے مطابق کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت واٹر سپلائی منصوبوں واٹر سپلائی منصوبوں کیلئے 92 ارب روپے، سیوریج ٹریٹمنٹ کیلئے 141 ارب روپے، نالوں کی صفائی اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے منصوبوں پر 267 ارب روپے جبکہ ماس ٹرانزٹ، ریل اینڈ روڈ ٹرانسپورٹ کیلئے 572 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے تجاوزات کے خاتمے میں بے گھر ہونیوالوں کی آبادکاری کا ذمہ لیا تھا۔منصوبوں کے تحت پانی کی فراہمی، نالوں سے تجاوزات کا خاتمہ، سیوریج نظام کی بہتری، کوڑا کرکٹ کی صفائی، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کو بہتر بنایا جائیگا۔ سرکلر ریلوے بحال کی جائیگی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا مسئلہ بھی حل کرینگے۔یہ کہنا تھاجتنے منصوبوں کا اعلان کیا ہے اس میں ایک سال کے عرصے میں پہلا مرحلہ جبکہ 3 سال میں دیگر 2 مراحل مکمل کرنے کا کہا گیا تھا،لیکن پہلا مرحلہ تو مکمل ہونا دور کی بات ہے ہم ابھی تک کراچی کے تین بڑے نالوں کی صفائی تک نہیں کر پائے ہیں۔
کراچی کو طویل عرصے سے سہ فریقی کشمکش کا سامنا ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہی کوئی حل نکالنا ہوگا۔ کراچی انتظامی اور سیاسی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پانی، بجلی، گیس یا دیگر شہری سہولیات کی فراہمی کے ذمہ داران تمام بڑی اداروں کی ملی بھگت سے ایک سے زیادہ مافیاز شہر کو کنٹرول کررہے ہیں۔ کراچی ڈومیسائل پر نوکری حاصل کرنا تقریبا نا ممکن بنادیا گیا ہے، یہاں تک کہ گریڈ 1-15 ملازمتوں سے بھی محروم رکھا جارہا ہے مافیا کا قبضہ ہے، جس کی وجہ سے کراچی کا کوئی میگا پروجیکٹ کبھی مکمل نہیں ہوا ہے جبکہ اربوں خرچ ہوئے ہیں چاہے وہ 40 سال پرانا کراچی ماس ٹرانزٹ ہو یا موجودہ اسکیمیں جیسے K-IV یا گرین لائن بس۔گذشتہ برسوں کے دوران، کراچی کی حیثیت مزید تبدیل ہوئی ہے۔ اب یہ متعدد شہری اداروں اور حکام کے ساتھ مل کر سات اضلاع کا شہر بن گیاہے اب سیاسی مقاصد کے تحت ایک اور نئے ضلع کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے تاکہ بلدیاتی اداروں پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کیا جاسکے، جس نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔شہر میں ہزاروں کچی آبادیاں موجود ہے جس میں قریب 50 لاکھ افراد انتہائی خراب حالات میں رہتے ہیں۔ اکثر آبادیوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور انہیں لیز بھی کردیا گیا ہے ان کچی آبادیوں نے جہاں شہر کا حسن تباہ کیا ہے وہاں نا ختم ہونے والے بلدیاتی مسائل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔چند علاقوں کو چھوڑ کر پورا شہر کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے کیونکہ حکمرانوں کا اس شہر میں کوئی اسٹیک نہیں ہے وہ اسے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تصور کر رہے ہیں۔ دنیا کے پانچویں بڑے اور ملک کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر میں حیرت انگیز طور پر ٹرانسپورٹ کے نظام کو آہستہ آہستہ ختم کردیا گیایہ وہ شہر تھا جہاں کبھی ڈبل ڈیکر بسیں، ٹرام، سرکلر ریلوے اور سرکاری بسوں کا ایک مربوط نظام ہوتا تھا۔ کراچی کی سڑکیں کسی پسماندہ ترین علاقے سے زیادہ بدحالی کا شکار ہیں، نکاسی و فراہمی آب کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے، سیوریج کا پانی گٹر لائنوں کے بجائے شہر کی گلیوں اور محلوں کی سڑکوں پر کھڑا ہے۔خیر مسائل تو اتنے ہیں یا جان بوجھ کے پیدا کئے جارہے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔جو ہو چکا وہ ہو چکا اگر ہم کراچی کوترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں دیکھنا چاہتے ہیں تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر ہو نا ہوگا اور صرف اس کی ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا۔ سیاست سے علیحدہ ہوکر سنجیدگی کے ساتھ وعدے نبھاتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو وقت پر مکمل کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم کو کراچی آنے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے معنی خیز مشاورت کے بعد فیصلے کرنے چاہئیں۔ حل کیلئے فیصلوں پر جلد عمل درآمد کرنا ضروری ہے اور سپریم کورٹ خاص طور پر متعدد احکامات' کے سلسلے میں نگرانی کر سکتی ہے۔کراچی میں آبادی کی تازہ مردم شماری کی ضرورت ہے۔ کیونکہ صحیح آبادی کا پتہ لگائے بغیرشہر کی ضروریات اور منصوبوں کا صحیح انداز میں آگے بڑھا نا نا ممکن ہے۔بلدیاتی اداروں کو آئین میں درج اختیارات دے کر ان کے فوری انتخابات کرانے ہوں گے اور میئر کو دنیا بھر کے میگاسٹی میئروں کی حیثیت اور اختیارات دینا ہوں۔تما م شہری اداروں کو ایک چھتری کے تحت کام کرنے کا پابند بنایا جائے۔کراچی اور اس ملحقہ علاقوں کی سڑکوں، فراہمی و نکاسی آب کے نظام کو ازسر نو تعمیر کیا جائے کیونکہ زیادہ تر نظام اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کو منظم انداز میں دیکھا جائے اور اس بے ہنگم تعمیرات کو ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت بہتر بنایا جائے۔گرین لائن، اورینج لائن، ریڈ لائن، بلیو لائن، کراچی سرکلر ریلوے، کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام، ٹرام سروس اور بسوں کا موثر نیٹ ورک قائم کرنے کے لئے ایک وقت مقرر کیا جائے اور اس میں منصوبے مکمل کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ کراچی کے شہری ہی اصل میں شہر کے اسٹیک ہولڈر ہیں ان کی ہرسطح پر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ وفاق اور صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کو ان کی ضرورت کے مطابق مالی وسائل فراہم کریں اور جو ادارے ترمیم کرکے ان سے لئے گئے انہیں واپس کیا جائے تاکہ بلدیاتی ادارے خود مختاری کے ساتھ اپنے معاملات چلا سکیں ان پر نظر رکھنے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جاسکتی ہے۔ اب ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ہمیں کراچی کی ترقی مقصود ہے یا اس کی مزید تباہی۔