بیانیے کی جنگ کون جیتے گا ؟
ندیم بسرا
اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی صف بندی شروع کر دی ہے،پاور پالیٹکس کے جاری کھیل میں ہر جماعت وقت اور حالات کی مناسبت سے پینترے بدل کر سامنے آ رہی ہے ،کل تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا تاثر دینے والی ن لیگ کے ارکان شاہد خاقان عباسی اور محمد زبیر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری راولپنڈی والوں سے صلح ہو گئی ہے ہماری تو ان سے لڑائی ہی نہیں تھی۔دوسری جانب پیپلز پارٹی الیکشن سے قبل پنجاب میں صف بندیوں کو مکمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پاکستانی سیاست روز نئی کروٹ لے رہی ہے، جو ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کی نشاندہی کر رہی ہے۔حکومت اپنے ایجنڈے کے حوالے سے واضح حکمت عملی رکھتی ہے نہ اپوزیشن ابھی تک آن گراؤنڈ حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔پی ڈی ایم کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے کے باعث حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ درپیش نہیں مگر حکومتی جماعت میں اندرون خانہ ہونے والی توڑ پھوڑ،سکینڈلز اور سب سے بڑھ کر مہنگائی نے اسے وہ نقصان پہنچایا ہے جو اپوزیشن کی 11جماعتیں نہیں پہنچا سکیں،آٹا ،گھی مرغی ،گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور پھر حکومت کی طرف سے اربوں روپے کے پیکیج کے باوجود رمضان بازاروں میں روزہ داروں کی دو کلو چینی کے لیے خواری کا مشاہدہ سب پاکستانی کر چکے ہیں ہیں،جس کا جواب مہنگائی کے مارے عوام نے سینٹ اور ضمنی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو جیت کی صورت میں دیا ہے،حکومت ایک طرف اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات اور اصلاحات کا ڈول ڈالتی ہے تو دوسری طرف آرڈیننسوں اور کہیں نہ کہیں انتقامی کارروائیوں کی جانب گامزن نظر آتی ہے،تاہم اپوزیشن اس کے جھانسے میں نہیں آئی اور بیک ڈور چینل ڈپلومیسی بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اور اب جہاںموجودہ حکومت کے تین سال مکمل ہونے کو ہے مگر حکمران جماعت میں دراڑیں پڑنا کم نہ ہوسکی ،پہلی دراڑ سینیٹ الیکشن کے دوران سندھ اور بلوچستان میں وہاں کی صوبائی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر سینیٹر منتخب کرانے سے پیدا ہوئی،جس کے نتیجے میں اب بلوچستان کی جام حکومت ڈول رہی ہے۔کراچی میں تحریک انصاف کے امیدوار کا پانچویں نمبر پر آنا پی ٹی آئی کے اندرونی خلفشار اور دھڑے بندی کی بھر پور عکاسی کر رہا ہے۔کیونکہ سندھ میں سینٹرز کی پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر جو ڈرامہ ہوا وہ سب نے دیکھا اور اس کا نتیجہ ضمنی انتخاب میں سب پر عیاں ہوگیا۔پنجاب میں کیا ہونے جارہا ہے جہانگیر ترین کو شوگر سکینڈل میں فکس کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا جس کا بدلہ لینے کے لئے پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنا لیا اور یہ گروپ اہمیت کا حامل ہے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پارٹی کے اندر ہی ایک طاقتور گروپ تشکیل دیدیا ہے اور اب انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھ کے قومی اور پنجاب اسمبلی میں اپنے پارلیمانی لیڈرز کا بھی تقرر کر چھوڑا ہے۔یہ تو سیدھا سیدھا حکومت پر عدم۔اعتماد لگتا ہے واقفان حال کہہ رہے ہیں بجٹ اجلاس پر کوئی بڑا کھڑاک کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی صف بندی شروع کر دی ہے،پاور پالیٹکس کے جاری کھیل میں ہر جماعت وقت اور حالات کی مناسبت سے پینترے بدل کر سامنے آ رہی ہے ،کل تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا تاثر دینے والی ن لیگ کے ارکان شاہد خاقان عباسی اور محمد زبیر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری راولپنڈی والوں سے صلح ہو گئی ہے ہماری تو ان سے لڑائی ہی نہیں تھی۔دوسری جانب پیپلز پارٹی الیکشن سے قبل پنجاب میں صف بندیوں کو مکمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ،ادھر پیپلز پارٹی وسطی پنجاب میں اپنی تنظیم نو کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرتی دکھائی دیتی ہے،پارٹی کی سابق قیادت قمر زمان کائرہ ،چوہدری منظور ، حسن مرتضیٰ اور انکی ٹیم کو قیادت نے مشکل وقت میں ایک چیلنجنگ ٹاسک دیا تھا جس کو انہوں نے بھر پور انداز میں نبھایا اور پارٹی کو وسطی پنجاب میں پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اپنے 3 سالہ دور میں خوب محنت کی جس پر وہ خراج تحسین کے حقدار ہیں۔خاص طور پر قمر زمان کائرہ، چوہدری منظور اور حسن مرتضیٰ نے پرنٹ، الیکٹرانک ، سوشل میڈیا اور پنجاب اسمبلی میں پارٹی کے موقف اور بیانیے کو بھرپور انداز میں آگے بڑھایا،اب سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو سینٹرل پنجاب کی تنظیم نو کے لیے چیف آرگنائزر مقرر کیا گیا ہے گزشتہ دنوں وہ لاہور میں تھے اگر انہوں نے پارٹی کے جیالوں اور روٹھے ہوئے ارکان قاسم ضیاء ، چوہدری اعتزاز احسن،میاں مصباح الرحمن اور ان جیسے دیگر اہم ارکان کو پارٹی کے ساتھ جوڑ لیا تو آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کو لاہور اور سینٹرل پنجاب میں سیٹیں لینے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہو سکتی،راجہ پرویز اشرف خود گراس روٹ لیول سے سیاست میں آئے ہیں اور انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ پارٹی کارکنوں کو کیسے اکٹھا کرنا ہے اور تنظیم سازی کیسے کی جاتی ہے،وسطی پنجاب کی تنظیم سازی کرتے وقت وہ یہاں کی سابق قیادت کے ساتھ ساتھ پارٹی کے سابق ڈویژنل ،ڈسٹرکٹ اور تحصیل کے عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈر سے ذاتی رابطے کر کے انہیں اعتماد میں لیں،تنظیم سازی کرتے وقت عام کارکنوں کی رائے کو بھی احترام دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ 2023 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی پنجاب کی ایک بڑی جماعت بن کرنہ ابھر سکے ،ٹاسک خاصا مشکل اور کٹھن ہے اور وقت پر لگا کر اڑ رہا ہے راجہ صاحب کو وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پاؤں جمانے ہیں تو مفاہمت یا مزاحمت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا ورنہ دوبیانیے لیکر چلنے والوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے آپ اور ہم سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔