کار گردگی شاندار،بلا جواز تنفید نہ کریں،چیئر مین نیب،احسن اقبال کے خلاف ریفرنس دائر
اسلام آباد(نا مہ نگار/ نوائے و قت رپورٹ) قومی احتساب بیورو (نیب)راولپنڈی نے جعلی بینک اکائونٹس کیس میں بدعنوانی کے 14ریفرنسز اسلام آباد کی معزز احتساب عدالتوں میں دائر کئے ہیں جبکہ جعلی بینک اکائونٹس سکینڈل میں اب تک 23.852ارب روپے ریکور کئے گئے ہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی صدارت میں نیب ہیڈ کوارٹرز میں اجلاس میں نیب راولپنڈی کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر، پراسیکیوٹر جنرل اکائونٹیبلٹی سید اصغر حیدر، ڈی جی آپریشن نیب ظاہر شاہ، ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی اور نیب کے دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نیب راولپنڈی نے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی دانشمندانہ قیادت میں جعلی بینک اکائونٹس کیس میں بدعنوانی کے 14ریفرنسز اسلام آباد کی معزز احتساب عدالتوں میں دائر کئے ہیں جبکہ جعلی بینک اکائونٹس سکینڈل میں اب تک 23.852ارب روپے ریکور کئے گئے ہیں۔ جعلی بینک اکائونٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، لیاقت علی قائم خانی، خورشید انور جمالی، اعجاز ہارون، سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی و دیگر توشہ خانہ ریفرنس، بحریہ ٹائون، محمد بلال شیخ، خواجہ انور مجید، سابق صدر آصف علی زرداری و دیگر پارک لین کیس، اعجاز احمد خان، خواجہ عبدالغنی مجید پنک ریذیڈنسی کیس، محمد حسین سید اور حسین لوائی کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنسز دائر کئے گئے ہیں۔ اجلاس میں ڈائریکٹر نیب راولپنڈی نے بتایا کہ نیب راولپنڈی نے سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے خلاف احتساب عدالت اسلام آباد میں بدعنوانی کا ریفرنس دائر کیا ہے، نارووال سپورٹس سٹی منصوبہ میں یہ ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ ملزم احسن اقبال نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے منصوبہ کی لاگت 34.75ملین روپے سے بڑھا کر 2994ملین روپے تک بڑھائی۔ احسن اقبال کی ہدایت پر 1999 میں بغیر کسی فزیبلٹی سٹڈی اور قواعد و ضوابط کو پورا کئے بغیر شروع کیا گیا تھا۔ احسن اقبال کی سربراہی میں سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے ابتدائی طور پر اس منصوبہ کی لاگت 34.74ملین روپے منظور کی بعد ازاں منصوبہ کی لاگت 97.52ملین روپے تک پہنچ گئی۔ ملزم احسن اقبال نے نہ صرف اس منصوبے کا دائرہ کار بڑھایا بلکہ اس منصوبہ کیلئے مخصوص خسرہ نمبر کے ذریعے اراضی حاصل کرنے کی نشاندہی کی۔ یہ منصوبہ 2009 میں دوبارہ شروع کیا گیا اور تقریباً 732ملین روپے لاگت منظور کی گئی تاہم 2011 میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اس منصوبہ کو حکومت پنجاب کے حوالہ کر دیا گیا۔ احسن اقبال نے 2013 میں وزیر منصوبہ بندی کا عہدہ سنبھالا، انہوں نے غیر قانونی طور پر اس منصوبہ کو پی ایس ڈی پی 2013-14 میں اکٹھا کیا۔ حکومت پنجاب نے14-2013کے ترقیاتی پروگرام میں اس منصوبہ کو شامل کیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ نیب’’احتساب سب کیلئے‘‘کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستا کو کرپشن فری بنانے کیلئے پرعزم ہے، نیب کی انسداد بدعنوانی کی حکمت عملی کے شاندار نتائج آئے ہیں۔ چیئرمین نیب نے ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی کی قیادت میں نیب راولپنڈی کی کارکردگی کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ نیب راولپنڈی کے افسران شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر قانون کے مطابق نمٹانے کیلئے اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے۔ نیب ہیڈ کوارٹرز میں چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنی زیر صدارت اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ نیب کیخلاف منظم پراپیگنڈا جاری ہے۔ مثبت تنقید کا ہمیشہ خیرمقدم کیا۔ نیب پر تنقید کرنے والے آئین اور قانون نہیں جانتے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ نیب قانون کا اسفندر یار ولی کیس میں جائزہ لے چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب قانون کو غیرآئینی قرار نہیں دیا۔ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب کی کارکردگی ہمیشہ شاندار رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تنقید وہی کرتے ہیں جنہیں آئین و قانون کا نہیں پتا، یہ لوگ جب روسٹرم پر آتے ہیں تو کہتے ہیں نیب کا قانون بڑا ڈریکونین ہے۔ روسٹرم پر آنے والا بندہ سمجھتا ہے کہ اس کو ڈریکونین والا جملہ ضرور کہنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کرنے والا بھول جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے نیب قوانین کا مکمل جائزہ لیا ہے، سپریم کورٹ نے بھی یہ قرار نہیں دیا کہ نیب قوانین ڈریکونین ہیں، سپریم کورٹ نے نیب قوانین میں جو بہتری کی جاسکتی تھی وہ تجویز کی۔