مریم نواز کی انتہا پسندی نے پی ڈی ایم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
مریم نواز شریف کی سیاسی ’’انتہا پسندی‘‘ نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے واضح موقف کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ مریم نواز شریف کے طرز سیاست سے ناصرف اختلاف رکھتے ہیں بلکہ پارلیمانی سیاست کے پروٹوکولز کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے مریم نواز شریف کو یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں طاقت کا مرکز میاں شہباز شریف ہیں۔ ان کی سیاسی حیثیت اور مرتبے کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی میاں شہباز شریف کے موقف اور فیصلوں کو پارٹی پالیسی سمجھے گی۔ ایک ایسی سیاسی تحریک جس میں ملک کی اہم سیاسی جماعتیں شامل تھیں وہ پلیٹ فارم صرف اور صرف میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی سیاسی دہشت گردی کی نذر ہو رہا ہے۔ کوئی ایک سیاسی جماعت ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو شوکاز نوٹس کیسے بھیج سکتی ہے۔ کسی بھی تحریک میں شامل کوئی سیاسی جماعت کیسے کسی سیاسی جماعت سے جواب طلبی کر سکتی ہے۔ سیاسی تحریکیں باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات کے تحفظ، تحمل مزاجی اور برداشت سے ہی آگے بڑھتی ہیں لیکن میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف نے ناصرف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو ریاستی اداروں کے خلاف تحریک بنایا بلکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی انہی خطوط پر آگے بڑھنے کی توقع کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سیاسی سمجھ بوجھ اور حالات کو اپنے انداز میں دیکھتے ہوئے لندن بیٹھے میاں نواز شریف کے انتشار پھیلانے والے بیانیے کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی علیحدگی کے بعد پی ڈی ایم کی کمزور حالت سب کے سامنے ہے۔ ایک مرتبہ پھر مریم نواز شریف اور ان کے دھڑے سے تعلق رکھنے والے افراد نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ہدف بنایا۔ مریم نواز شریف نے متحرک ہوتی پی ڈی ایم پر دوبارہ حملہ کیا ہے۔ انہوں نے اس وقت میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بارے خیالات کا اظہار کیا ہے جب میاں شہباز شریف اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مریم نواز شریف پاکستان پیپلز پارٹی سے جواب طلبی کر رہی ہیں اور میاں شہباز شریف حزب اختلاف کی جماعتوں کو "ایک پیج" پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے لیے سب سے بڑا مسئلہ حتمی فیصلے کے اختیار کا ہے۔ موجودہ حالات میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ نون لیگ میں "طاقت" کا مرکز کون ہے۔ کیا مریم نواز شریف میاں شہباز شریف کے طرز سیاست کو اپنا سکتی ہیں۔ کیا میاں شہباز شریف اپنی بھتیجی کے لیے گوشہ نشینی اختیار کر لیں گے۔ یا تو مریم نواز شریف کو خاموش ہونا پڑے گا یا پھر میاں شہباز شریف کو اپنے خیالات بدلنا ہوں گے۔ دونوں میں سے کسی ایک کو یا تو خاموشی اختیار کرنا ہو گی یا پھر اعلانیہ علیحدگی اختیار کرنا ہو گی، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی میاں شہباز شریف کی عملی سیاست سے مشروط ہے اور پیپلز پارٹی کے بغیر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی بھی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔