قومی اسمبلی:پانی کے معاملہ پر ہنگامہ،دنیا کے مقابلے میں مہنگائی کم کر رہی ،وزیر خزانہ
اسلام آباد (نامہ نگار) پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی میں صوبہ سندھ کو پانی کا کم حصہ دینے اور ارسا میں سندھ کے ممبر کو زدوکوب کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔ اس دوران ہنگامی آرائی ہوئی۔ جس پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے متعلقہ وزیر کو بیان دینے کے لیے آج قومی اسمبلی میں طلب کر لیا ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ سندھ کے اندر بھی پانی کی تقسیم میں امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ سندھ کے ہر ضلعے کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر کی صدارت میں ہوا۔ نقطہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے کہا ہے کہ سندھ میں پانی کی کمی کا مسئلہ اٹھایا۔ اور کہا کہ ایوان کی کمیٹی کو زیریں سندھ میں بھیج کر اصل صورتحال معلوم کی جائے۔ اگر پانی نہ ملا تو سندھ کی چاول کی فصل نہیں ہوگی۔ حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لے۔ ڈپٹی سپیکر نے ہدایت کی کہ متعلقہ وزیر جمعہ کو ایوان میں اس صورتحال پر بریفنگ دیں۔ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کی چوری کے ذمہ داروں اور میری زمینوں پر حملہ آور ہونے والوں کو بے نقاب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ایک ریگولیٹر بھی کام نہیں کر رہا۔ سندھ میں ایک نہر کی صفائی بھی نہیں ہوئی مگر آبپاشی کے محکمہ کے بجٹ سے رقم خرچ کی جارہی ہے۔ زیریں سندھ سے جتنی ناانصافی ہو رہی ہے اس کا ازالہ کون کرے گا۔ میرے یہاں آواز اٹھانے پر بشارت زرداری نے ہماری زمین پر قبضہ کیا۔ بشارت زرداری کے پاس جو اسلحہ ہے وہ سندھ پولیس کے پاس بھی نہیں ہے۔ مجھے اور میرے خاندان کو خطرہ ہے، میں کس سے اپیل کروں۔ ہماری زندگیوں کو خطرہ ہے۔ 20 افراد سندھ میں کتوں کے کاٹنے کا شکار ہوئے۔ شازیہ مری نے کہا کہ پانی کی کمی ایک بنیادی ایشو ہے مگر بلاول بھٹو اور سندھ کے وزیر یہاں موجود نہیں ہیں ان کا نام یہاں لینا مناسب نہیں ہے۔ 600ووٹ لے کر اگر ان کی سیاست ناکام ہوئی ہے تو اس میں پیپلز پارٹی کا قصور نہیں ہے۔ وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا۔ میں نے تو بلاول بھٹو کے آنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ میں نے سندھ کی بات کی ہے۔ اقلیتی طلبا کے لئے اعلی تعلیم تک رسائی بل 2021ء کو نظرثانی کے لئے دوبارہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ جمشید تھامس نے تحریک پیش کی جب تک بل کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا اس حالت میں بل کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ محمود بشیر ورک نے کہا کہ ہم ان کے اقلیتوں کے کوٹے کے مخالف نہیں ہیں مگر میرٹ کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔ جے پرکاش نے مطالبہ کیا کہ اس بل کو منظور کیا جائے ۔ لال چند نے کہا کہ کمیٹی سے یہ بل منظور ہو چکا ہے اس پر ووٹنگ کرائی جائے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ بل کی ہم نے اصولی طور پر حمایت کی ہے۔ میرے نکتہ نظر کو غلط رنگ دیا جارہا ہے۔ بل میں جن تعلیمی اداروں کا ریفرنس دیا گیا ہے وہ صوبوں کے ماتحت آتے ہیں۔ یہی بل اگر سندھ اسمبلی میں پیش ہو تو ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے۔ صابر حسین قائم خانی نے کہا کہ ہم کوٹے کی حمایت کرتے ہیں مگر میرٹ کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ مفتی عبدالشکور نے کہا کہ کوٹہ پسماندگی کی بنیاد پر ہونا چاہیے مگر میرٹ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈپٹی سپیکر نے بل واپس کمیٹی کے سپرد کردیا۔ قومی اسمبلی میں دستور (ترمیمی) بل 2021پیش کردیا گیا۔ کیسومل کھیل داس نے تحریک پیش کی اور کہا کہ قائداعظم کے فرمان اور دستور کے مطابق اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ بل کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اقلیت کے نام سے نہ پکارا جائے۔ پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے کہا کہ دستور میں ترمیم بحث کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس کو مذہبی امور کی کمیٹی میں بھیج دیا جائے۔ وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری زین حسین قریشی نے کہا کہ وفاقی سرکاری اداروں کی تنظیم نو کے لئے کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات نے سفارش کی ہے کہ بی پی ایس ایک تا 16 کی ایک سال سے زائد عرصہ سے خالی رہنے والی تمام آسامیوں کی تمام وزارتوں، ڈویژنوں اور ایگزیکٹو محکموں میں ختم کردیا جائے۔ ایوان کو بتایا گیا کہ پنشن اور اس سے متعلقہ ذیلی فوائد کو ختم کرنے کی کوئی تجویز وزارت خزانہ ڈویژن کے زیر غور نہیں ہے۔ احمد حسین ڈیہر کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری زین حسین قریشی نے کہا کہ اس کو فنانس ایکٹ 2020کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس 2001میں شامل کیا گیا ہے۔ لہذا مراعاتی پیکج سکیم میں انکم ٹیکس (ترمیمی) آرڈیننس 2021کے تحت توسیع کی گئی ہے۔ شاہدہ رحمانی نے تحریک پیش کی کہ مقام کار پر خواتین کو ہراساں کرنے سے تحفظ کا (ترمیمی) بل 2020پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ حکومتی بل بھی ہے دونوں بل یکجا کرکے انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے مقام کار پر خواتین کو ہراساں کرنے سے تحفظ کرنے کا (ترمیمی) بل ایوان میں پیش کیا۔ ڈپٹی سپیکر نے دونوں بل یکجا کرکے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیئے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں وزیرخزانہ شوکت ترین نے مہنگائی پر تحریری جواب میں کہا کہ اپریل2021میں کرونا وائرس کے دوران طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے دنیا بھر میں مہنگائی بڑھی، ایران میں 49.5فیصد جبکہ ترکی میں 17.1فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان میں 2018-19میں مہنگائی کی شرح 6.8 فیصد تھی، 2019-20میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 10.7فیصد رہی، جولائی سے اپریل 2021 تک مہنگائی کی شرح 8.6فیصد رہی۔ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم رہی ہے۔