شہباز ،بلاول شدت پسندی کے قائل نہیں،دونوں اپوزیشن کا کردار طے کرینگے
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
ملکی سیاست میں اپوزیشن کے کردار کا تعین میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے کرنا ہے۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ملکی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ دونوں سیاست میں شدت پسندی کے قائل نہیں ہیں۔ پاکستان کو متوازن سوچ کے حامل، تحمل مزاجی سے کام کرنے والے اور قوت برداشت کے حامل سیاسی قائدین کی ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف کی سیاست وینٹی لیٹر پر ہے، ان کی جماعت کے ایک دھڑے میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ چند غیر منتخب افراد کی غیر سنجیدہ سیاست، غلط فیصلوں اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات پارلیمانی نظام کے لیے خطرہ ہیں، مضبوط سیاسی جماعتیں ہی بہتر سیاسی نظام کی ضامن ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اندرونی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں سے بہتر نظر آتی ہے کیونکہ یہاں اندرونی اختلافات نسبتاً کم ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کو اندرونی طور پر مسائل کا سامنا ہے۔ دونوں جماعتوں میں واضح طور پر دھڑے بندی موجود ہے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتیں یکسوئی کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش مسائل پر کام نہیں کر سکتیں۔ اندرونی اختلافات کے باعث بہت وقت جوڑ توڑ میں گذرتا ہے وہیں لوگوں کو منانے یا نمبر گیم میں برتری کے لیے میرٹ پر بھی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ ملکی مسائل کے بجائے میڈیا میں بہت زیادہ وقت سیاسی جماعتوں کے اندرونی مسائل پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ اس صورتحال میں عوامی مسائل نظر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی دھڑے بندی سب کے سامنے ہے اور اب میاں شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کی وجہ سے مسلم لیگ میں بھی دھڑے بندی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ مسلم لیگ نون کا ایک دھڑا پیپلز پارٹی کے حوالے سے نہایت سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بیان بازی کر رہا ہے۔ میاں شہباز شریف حکومت مخالف تحریک چلانے اور سیاسی مزاحمت کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ ان حالات میں نون لیگ کے چند رہنماؤں کی بیان بازی کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں ایک مرتبہ پھر تلخیاں پیدا ہوئی ہیں۔ میاں شہباز شریف سیاسی جماعتوں کو متحد کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ان کی اپنی جماعت ہی مفاہمتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے۔ سیاسی جماعتوں میں ہر وقت حکومت میں رہنے کی سوچ بھی پارلیمانی نظام کے لیے خطرہ ہے۔ اس نظام میں اپوزیشن کا کردار بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اپوزیشن مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ وہ اپوزیشن جو حکومت کو گرانے کے دعوے کرتی رہتی ہے خود ہی انتشار کا شکار ہے۔ اس انتشار کی وجہ سے حکومت کو تو نقصان نہیں ہوا البتہ عام آدمی کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تو واضح پالیسی کے ساتھ اپنی جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔ اب سارا وزن اور گیند مسلم لیگ نون کی کورٹ میں ہے بلکہ گیند میاں شہباز شریف کی کورٹ میں ہے۔ انہیں گیند واپس پیپلز پارٹی کی طرف پھینکنے سے پہلے اپنے پارٹنر سے معاملات طے کرنا ہیں۔