ہمارا لیڈر کیسا ہونا چاہیے؟؟؟
ملک میں کئی سیاسی جماعتیں ہیں ہر جماعت میں کئی سیاسی رہنما ہیں، ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں اور مختلف طرز کی حکومتوں کے باوجود آج بھی پاکستان کے دیرینہ اور بنیادی مسائل اپنی جگہ کھڑے ہیں۔ فوجی و سیاسی حکومتیں دیرینہ مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ کبھی وسائل کم ہوتے تھے لیکن احساس کی کمی نہیں تھی، دولت کم تھی لیکن ایثار کی کمی نہیں تھی، ہتھیار زیادہ نہیں تھے لیکن کوئی خوف نہیں تھا، مکان کچے تھے لیکن حفاظتی حصار بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ سب سے بڑا نقصان انسانی معیار کے گرنے کا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں تو بنتی چلی گئیں لیکن ہم حقیقی قیادت سے محروم رہے۔ جو سیاسی قیادت سامنے ہے اس کے حالات سب کے سامنے ہیں۔
کیا یہ قیادت ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کر سکتی ہے۔ ہمارا قائد کیسا ہونا چاہیے، ہمیں کن مسائل کا سامنا ہے۔
بنیادی طور پر سب سے پہلا مسئلہ لوگوں کے لیے زندگی کو آسان بنانا اور ان میں زندگی کی اہمیت میں اضافہ ہے۔ جب تک ہم اس نعمت کی قدر میں اضافہ نہیں کریں گے اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس کے بعد لوگوں کی اخلاقی تربیت سب سے اہم ہے۔ وہ بنیادی چیزیں جن کے بغیر دنیا میں ترقی ممکن نہیں ہے بدقسمتی سے ہم ان اعمال سے محروم ہیں۔ سچ بولے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی، ہم جھوٹ کے سہارے ترقی کرنا چاہتے ہیں، باصلاحیت افراد کو موقع دیے بغیر بہتر نظام اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، ہم معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد سے معجزات کی توقع کیے بیٹھے ہیں، ذہنی آزادی کے بغیر تخلیقی کام نہیں ہو سکتے، دنیا کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، ہم اپنے لوگوں کو ذہنی غلام بنانے پر کام کر رہے ہیں، تعمیری کام کرنے والوں کا راستہ روکا جاتا ہے، تخلیقی کام کرنے والوں کو نظام سے دور رکھا جاتا ہے، ان حالات میں بہتری کیسے ممکن ہے۔ ہم نے ایثار و قربانی کے جذبے کو بھلا دیا ہے، تحمل و برداشت کو نظر انداز کر دیا ہے، درگذر کرنا بھول گئے ہیں، معاشرے میں توکل ختم ہو گیا ہے، لالچ، حسد، حرص، بغض عام ہو چکا ہے۔ چوری، ڈکیتی اور قتل ہو رہے ہیں، جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، اچھے بھلے سفید پوش لوگ مانگ کر کھانے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں ملک و قوم کی ترقی کی باتیں سفید جھوٹ نہیں تو اور کیا ہیں۔ یہ سب کام ساری سیاسی قیادت کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ کیا کسی نے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کام کیا ہے، کبھی کسی نے اس حوالے سے قوم کی تربیت کرنے کی کوشش کی ہے، سب عمارات کی تعمیر، بسیں چلانے، ٹرینیں اور نت نئے منصوبوں میں الجھانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، جرائم روکنے کے لیے نت نئی فورس آتی ہے لیکن جرائم کیوں ہو رہے ہیں ان وجوہات کو ختم کرنے کے بجائے غلط سمت میں سرمایہ اور وقت خرچ کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ساری سیاسی قیادت کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔
سیاسی رہنما ہر وقت ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں، ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اوپر جانے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں۔ جو زبان ٹیلیویژن چینلز پر استعمال ہوتی ہے کیا اسے سن کر کوئی بھی باشعور بہتر مستقبل کا سوچ سکتا ہے۔ رہنما تو راستہ دکھاتے ہیں یہ ہمارے سیاسی رہنما کون سا راستہ دکھا رہے ہیں۔ بدتہذیبی، بدزبانی، بد اخلاقی، کیا یہ ترقی کا راستہ ہے، کیا دنیا میں کسی بداخلاق قوم نے کبھی ترقی کی ہے اگر آج تک ایسا نہیں ہو سکا تو ہم کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ زبان میں ہڈی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اسے نرم بنایا ہے،زبان کی بناوٹ ہمیں نرمی کا سبق دیتی ہے جب کہ ہم ہر وقت اپنی زبان سے دوسروں کے احساسات کو قتل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمیں اپنی زبان پر قابو نہیں، ہمارا دماغ ہر وقت دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے، ہماری آنکھیں ہر وقت دوسروں کی خامیاں ڈھونڈنے میں مصروف رہتی ہیں کیا یہ اطوار ترقی کے ہیں؟؟ کیا ان بنیادی خامیوں کو دور کرنے کے لیے کام کرنا کسی سیاسی رہنما یا کسی سیاسی جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے، کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ چیزیں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے لوگوں کے دماغوں کے بجائے لوگوں کے معدے پر حکمرانی سے ہم ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر سات دہائیوں میں کامیابی نہیں مل سکی تو آئندہ ستر برس میں بھی کوئی معجزہ نہیں ہو سکتا۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور اپنی سیاسی قیادت کو دیکھتے ہوئے کیا آپ اپنی قیادت کی کارکردگی سے خوش ہیں، ہماری قیادت کسی ہونی چاہیے، ہمارا لیڈر کیسا ہونا چاہیے، کیا ہمارے سیاسی قائدین ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، ہمارے نظام میں کیا خامیاں ہیں، ہمارے سیاسی رہنماؤں میں کیا کمی ہے۔ ان موضوعات پر قارئین اگر اچھی تجاویز کے ساتھ لکھیں گے تو میں اسے اپنے کالم کا حصہ بناؤں گا۔ آپ سائرن کا ایک اہم حصہ ہیں اور ہم مل کر شعور و آگاہی پھیلانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ آپ مجھے ای میل کریں اچھی تجاویز کو سائرن کا حصہ بنایا جائے گا۔ ہم ہر وقت ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے بجائے ایک دوسرے کی عزت کرنا کون سکھائے گا۔ گرے ہوئے افراد کے اوپر سے گذرنا آسان ہے، گرے ہوئے کو اٹھا کر نظام کا حصہ کون بنائے گا، کیا ہمیں اردگرد ایسی سیاسی قیادت نظر آتی ہے؟؟؟