فیصل آباد کاسفر
حبیب جالب کبھی لائل پور کونہ بھلا سکا ہمیشہ یاد رکھا کہ لائل پور اک شہر ہے کہ جس میں دل ہے میراآباد جالب کی طرح مجھ سے بھی اس شہر کاسحرکبھی الگ نہ ہوسکا۔1970ء کی دہائی کے وسط میں جب علم وفن اورسیاسی ہماہمی عروج پر ہواکرتی تھی تو بین الکلیاتی مباحثوں میں یہ شہر پورے پاکستان میں اپنا حصہ ڈالتا ۔ اردو اورپنجابی زبان کے بڑے بڑے مقررین پیدا کئے اس شہر نے ۔افتخار فیروز ،راناذوالقرنین ،چوہدری عاشق حسین کنگ، چوہدری نعمت اللہ ،ارشد ملک ،علامہ ریاض حسین ریاض،حافظ مختار کے علاوہ ایک صاحب تھے جوہالینڈ میں جابسے بس اتنا یاد ہے کہ انکے نام میں قمر آتاتھا۔اسکے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ہے صرف اس ایک شہر کے لاتعداد مقررین اور شعراء کی ۔ گذشتہ ماہ آخری مقرروشاعر چوہدری عاشق حسین بھی یہ عالم ورنگ وبوچھوڑ کرعدم کوروانہ ہوگئے۔اب اس فہر ست میں آخری نام حافظ مختار کاہے ،خداانہیں لمبی عمر عطا کرے۔عاشق حسین کے جنازے میں شرکت نہ کرنے کا افسوس رہا۔گذشتہ ہفتے کے روز انکے بیٹے ماجد اور پھر بیٹی کافون آیا کہ ر سم چالسیواں میں ضرورشریک ہوں، ہمیں آپکی شکل میں ابویاد آئینگے۔وہ جب کبھی مباحثوں کاذکر کرتے توہمیشہ آپکو یاد کرتے ۔عاشق حسین کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج ہوسٹل میں چوہدری نعمت اللہ ،افتخارسلیمی،امین شاد اور ملک امجدوغیرہ بھی زندگی کے اس سنہری تین سالوں کے ساتھی رہے جو زندگی کی رنگارنگیوں، سیاست کے ہنگاموں DEBATES کے مقابلوں دائیں اوربائیں بازو کی کشمکشوں اور فکری معرکوں سے بھرپور تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے وقت دغا دے گیااورایک دن ہمیں معلوم ہواکہ ہم سب LLBکے امتحان میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ایک بھی ناکام نہ ہوا اور چند دنوں میں ہم سب لاء کالج ہاسٹل کی راہداریاں ، پہلوان کی کنٹین ،لاہورکے ہاسٹلز کاسب سے بہترین اپنا MESS، انارکلی اورمال روڈ سے جڑی یادیں چھوڑ چھاڑ کراپنے اپنے گھر وں کوروانہ ہوگئے۔ہاسٹل کو چھوڑتے وقت سب نے واپس پلٹ کر اسکی عظیم عمارت کودیکھا اور آنکھومیں آنسوبھرتے ہوئے پتہ نہیں کہاں کہاں اور کس کس شہر کوچلے گئے۔تاہم اسکے بعد لائل پور ضرور جانا رہتا۔گوجرانوالہ کے ایک دوست زبیر بٹ کے سسر کا عین گھنٹہ گھر چوک کے بیچ "کشمیر ہوٹل "تھا جہاں میں ٹھہرتااور سبھی دوست وہیں مجلسیں جماتے ۔ خوب خوب محفلیں سجتیں۔ شعرادب ،لائل پور کی جگتیں اور تقریر کے رموز پر گفتگو ہوتی ۔مقامی تحریک استقلال کے دوست اور دیگر کلاس فیلو سے بھی بہت ملنا جلنا رہتا۔مگر اب کی بار گیا تو ایسالگا جیسے لائل پورکادلی اجڑ گیاہو۔نہ کشمیر ہوٹل ،نہ تحریک استقلال کے سب ساتھی اور نہ دل وجاں سے عزیز دوست مل پائے۔ ملک امجد ایڈووکیٹ،پروفیسرمعظم بن ظہور، عبدالغفار واہلہ، نسیم آرٹسٹ ،مانچسٹر والے عارف ،مہر شوکت ، ڈاکٹر منیر عاصم مرحوم کے بیٹے افتخار اور چوہدری ظفر کے ہوتے ہوئے بھی اکیلے پن کا احساس ہو، ایسے لگاجیسے وہ پرانا لائل پو ر کہیں کھوگیا ہو۔اسکے آٹھوں بازاروں اور گلی کوچوں میں اب انسان نہیں ہجوم بستے ہیں اور ہجوم میں کسی کی پہچان بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔جب مطع صاف ہوتا تھا اور شہروں اور بستیوں میں اتنے ہی لوگ بستے تھے جتنے بسنے چاہئیں اورموٹرکاریں اور لگثرری بسیں بہت خال خال تھیں تو صبح صبح ہی شیخوپورہ موڑ گوجرانوالہ سے بیٹھ کراحباب سے ملنے لائل پورجاتا جواب فیصل آباد بن چکا تھا۔اس پورے سفر میں ایک خاص طرح کی رومانیت تھی۔جسے لفظوں میں بیان کروں تو شایدالفاظ نہ مل پائیں۔شیخوپورہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے ریلوے کا پھاٹک جو ہمیشہ بندہی ملا ، وہاں کھڑے ہوتے تو آدھی بس"حاجت "کیلئے ریلوے لائن یاکھیتوں میں چلی جاتی۔چوک سے روانہ ہوتے ہی شیخوپورہ کے دوست بہترین مقرر تنویر عباس تابش ، تحریک استقلال کے اکرام ناگرا، پیپلز پارٹی کے ایم ۔این ۔اے ملک عارف اعوان ،معروف شاعر سید امین گیلانی اور انکے بیٹے سلمان گیلانی شدت سے یادآتے۔موبائل فون کازمانہ نہیں تھا کہ حال احوال ہی دریافت ہوجاتا،بس دور سے سلام کرکے ایک بار پھر فیصل آباد کی طرف بس رواں دواں ہوجاتی ۔ راستے میںشاہکوٹ سے گزرتے ہوئے معروف ذاکر اور DEBATERعلامہ ریاض حسین ریاض کا گورنمنٹ کالج نظر آتا جہاں وہ ایف اے کے طالب علم تھے۔مگر فیصل آباد میں داخل ہوتے وقت عبداللہ پورکے پل کاجو رومانس نظر آتا وہ شیخوپورہ والے پھاٹک میں نہیں تھا۔ لاری اڈا پہنچ کرپہلی منزل "کشمیر ہوٹل"ٹھہرتی پھر سب دوستوں کو اطلاع دیتا اور زندگی کے ان سنہری دنوں کی محفل آرائیاں ہوتیں جو آج بھی نہیں بھول سکے۔اب کی بار ایساہوا کہ براستہ موٹر وے جاناہوا۔جونہی موٹروے سے اترکر فیصل آباد کا سفر شروع ہواتو یوں لگا جیسے یک بیک کسی صحرامیں آگیا ہوں ۔ٹنڈ منڈ ہی سہی مگر درخت توہونے چاہئیںجن پر کبھی بھی بہار آسکتی ہے مگر یہاں تو ویرانیوں کاراج تھا۔سخت زرد دھوپ ،نہ کوئی سایہ نہ سہارا۔اوپر سے کسی دوست کے چالیسویں پر جانا کچھ ایساخوشگوار نہ تھا۔ خزاں صرف درختوں اوران کے پتوں پر ہی نہیں دلوں پر بھی اترتی ہے اور اسے زردی سے بھردیتی۔ نوٹ:۔ اس شہر کے بڑے شاعر پروفیسر مجید ریاض سے ملاقات آئندہ کبھی سہی۔