کیا مشکل وقت ختم ہو رہا ہے؟؟؟
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ "مشکل وقت ختم ہو رہا ہے۔ ہمیشہ کہتا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے مگر لوگ گھبرا جاتے تھے، اب مشکل وقت سے نکل چکے ہیں اور بہت اچھا وقت آرہا ہے"۔ اللہ کرے وزیراعظم جیسا فرما رہے ہیں ویسا ہی ہو کیونکہ اب تک تو حکومت اپنا کوئی وعدہ نبھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی یہی وجہ ہے کہ شروع شروع میں جب وزیراعظم کہتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے گھبرانا شروع کر دیا۔ عوامی مسائل بڑھتے رہے اور لوگوں کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا رہا۔ پھر حالات اتنے بگڑے کہ لوگوں نے لوگ ہر وقت گھبرانے لگے کہ کسی بھی وقت مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس دوران کرونا وائرس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ اب ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم نے اچھے وقت کی خوشخبری سنائی ہے اللہ کرے کہ جو انہوں نے کہا ہے حرف حرف سچ ثابت ہو۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ "کہتا تھا صبر کرو اور گھبرانا نہیں مگر لوگ گھبراجاتے تھے، زندگی میں اونچ نیچ آتی ہے، انسان کو صبر کرنا چاہیے، اللہ کا کرم ہے کہ مشکل وقت نکل گیا۔" عوام نے چونکہ پاکستان تحریکِ انصاف کو منتخب کیا ہے انہیں ووٹ کی طاقت سے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے اس لیے عوام کی توقعات بھی حکومت سے ہیں۔ گوکہ ان دنوں اعداد و شمار کے ماہر معاشی ترقی کے بیانات جاری کر رہے ہیں یہ ممکن ہے کہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد جو بھی کہہ رہے ہوں وہ درست ہوں لیکن حقائق کچھ اور ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل خود کہا تھا کہ ملک میں بیس فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ ان بیس فیصد کو کیسے سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ ان کا طرز زندگی کیسے بلند ہو گا۔ چونکہ بہت ساری چیزیں بیانات سے جڑی ہیں حکومتی بیانات کی تردید بھی اس رفتار سے آتی ہے اس لیے لوگ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ کچھ معاشی ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ واقعی معیشت بہتر ہوئی ہے ترقی کی شرح سات آٹھ فیصد بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ کرے ایسا ہو ترقی کی شرح اتنی بڑھ جائے جتنا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ نہایت خطرناک ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے سماجی و معیاری زندگی سے متعلق سروے میں اڑتیس فیصد گھرانوں کے معاشی حالات ماضی کی نسبت بدتر ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بارہ فیصد گھرانوں نے گھریلو معاشی حالات کو پہلے سے بہت زیادہ بدتر ، چھبیس فیصد نے پہلے سے بدتر اور چھیالیس فیصد گھرانوں نے گھریلو معاشی حالات کو پہلے جیسا قرار دیا۔سندھ میں سب سے زیادہ انتیس فیصد گھرانوں نے گھریلو معاشی حالات کو بدتر قرار دیا۔ دوسرے نمبر پر کے پی میں ستائیس فیصد ، پنجاب میں پچیس فیصد اور بلوچستان میں بائیس فیصد گھرانوں نے گھریلو معاشی حالات پہلے سے بدتر قرار دیا ہے۔
یہ اعداد و شمار صرف پی ٹی آئی ہی نہیں ماضی کی حکومتوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس ناکامی سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ لگ بھگ پونے تین برس میں حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج غربت بڑھی ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے تو یہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ گوکہ وزیراعظم نے مشکل وقت کے خاتمے اور اچھے وقت کی نوید سنائی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ عام آدمی کے مسائل کم نہیں ہوئے بلکہ زندگی مشکل تر ہوئی ہے، حالات اتنے خراب ہوئے ہیں کہ پیسہ کماتے ہوئے درست اور غلط، حلال و حرام کی تمیز کم ہوتی جا رہی ہے اگر آپ اس طرف توجہ ہی نہیں دیں گے اور صرف بیانات جاری کرتے رہیں گے تو صرف بیانات سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حد تو یہ ہے جو چیزیں پیدا کرنے میں ہم خود کفیل تھے آج وہ چیزیں بیرون ملک سے منگوا رہے ناصرف منگوا رہے ہیں بلکہ مہنگی منگوا رہے ہیں اور یہ سارا بوجھ حکومت نے نہیں اٹھانا بلکہ عوام کی جیبوں پر اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ حکومت اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب مرغیوں میں ایک نئے وائرس کی شناخت کے بعد گوشت کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے حکومت اپنے تئیں بھرپور کوششیں کرتی رہی لیکن مرغی کے گوشت کی قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوئی مرغیوں میں وائرس کی تشخیص کے بعد گوشت کی قیمت میں فورا کمی ہوئی ہے یعنی کسی بھی چیز کو سستا خریدنے کے لیے وائرس کا ہونا ضروری ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ لاہور کی ویٹرنری یونیورسٹی میں مرغیوں کے پوسٹ مارٹم کے بعد ان میں وائرس کا انکشاف ہوا ہے اس خطرناک وائرس کی وجہ سے روزانہ چار ہزار مرغیاں ہلاک ہو رہی ہیں۔ رانی کھیت اور انفلوئنزا کے بعد ایڈینو وائرس نے مرغیوں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ یہ وائرس مرغیوں کے عصبی نظام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور سانس کی بیماریوں کا سبب بھی بنتے ہیں جبکہ ایڈینو وائرس کی وجہ سے رانی کھیت ویکسین غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق شہری مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی چھوٹی، چھوٹی مرغیاں خریدنے سے اجتناب کریں اور صرف دو کلو وزن والی مرغیاں ہی خریدیں۔ اب یہ گوشت سستا بھی ہو سکتا ہے اور مہنگا بھی ہو سکتا تھا۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم اگر معیشت بہتر بنا رہے ہیں تو عام آدمی کے مسائل حل کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ترقی کی شرح دس فیصد بھی ہو جائے لیکن سڑکوں پر لوگ بھوکے سو رہے ہوں، بچے ننگے پھر رہے ہوں، لوگ ادویات کی کمی سے زندگی کی بازی ہار رہے ہوں تو ترقی کی کوئی شرح کوئی اہمیت نہیں رکھتی اصل ترقی انسانوں کی ترقی ہے۔ حکومت عام آدمی کے لیے بہتر حکمت عملی کے ساتھ کام کرے اور عام آدمی کے لیے سہولیات اور زندگی میں کشش پیدا کرے۔