وزیراعظم ‘ انکے ساتھیوں اور سٹیٹ بنک کے اقتصادی ترقی کے دعوے
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہمارے پاس پیسہ نہیں تھا‘ دوست ممالک فنڈنگ نہ کرتے تو پاکستان دیوالیہ ہو جاتا‘ ہمارا مشکل وقت نکل گیا ہے اور بہت اچھا وقت آنیوالا ہے۔ گزشتہ روز رشکئی خصوصی اقتصادی زون کے کمرشل لانچ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج خیبر پی کے کے ساتھ ساتھ پاکستان کیلئے بھی بہت خوش آئند دن ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے پہلے ڈیڑھ سال میری زندگی کے سب سے مشکل سال تھے لیکن ہم اللہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے کرونا میں بھی ہم پر کرم کیا‘ اگر ہم لاک ڈائون لگا دیتے تو ہمارا حال بھی بھارت جیسا ہوتا۔ ہم نے ایسے فیصلے کئے جس سے لوگ غربت سے بچے‘ کرونا کی صورتحال میں امیر ممالک کی معیشت بیٹھ گئی‘ لیکن ہمارے مخالفین بھی حیران ہیں کہ گروتھ ریٹ چار فیصد کیسے ہو گیا۔ انکے بقول وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے اور لوگ گھبرا جاتے تھے مگر اب مشکل وقت سے نکل چکے ہیں اور بہت اچھا وقت آرہا ہے‘ ہماری معیشت اٹھنا شروع ہو گئی ہے اور اب ملک ٹھیک جگہ پر کھڑا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں اقتصادی بدحالی کی صورت میں ملنے والی قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی دوسری قیادت کے ذہن میں ملک اور عوام کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کیلئے جو نقشہ موجود تھا‘ اسے بھی فوری طور پر عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنے منشور کے برعکس بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف کے پاس بھی جانا پڑا اور چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے پاکستان کے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی خاطرخواہ معاونت کی۔ اسکے باوجود فوری طور پر معیشت سنبھل سکی نہ عوام کو انکے گوناںگوں روزمرہ کے مسائل میں کسی قسم کا ریلیف مل سکا جبکہ مزید ٹیکسوں کی بھرمار اور بجلی‘ گیس‘ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بتدریج اضافہ سے عوام مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق عملاً زندہ درگور ہو گئے۔
بے شک کرونا وائرس سے عہدہ برأ ہونا بھی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا جو ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو جھنجوڑتے جھنجوڑتے پاکستان جیسی کمزور معیشتوں کا بھی انجرپنجر ہلا چکا ہے۔ چنانچہ حکومت کیلئے عوام کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ ایفا کرنا بھی مشکل ہو گیا اور عوام کے غربت‘ مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل بھی گھمبیر ہو گئے۔ اس سے عوام میں اضطراب پیدا ہوا تو حکومت مخالف جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر حکومت کیخلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا نادر موقع مل گیا۔ اگرچہ اس وقت حکمران مخالف اتحاد پی ڈی ایم تتربتر ہے تاہم اقتصادی کساد بازاری کے نتیجہ میں عوام کے روزبروز بڑھتے روٹی روزگار کے مسائل اپوزیشن کو دوبارہ متحد ہونے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں جس کیلئے میاں شہبازشریف سرگرم بھی ہیں۔
اس صورتحال میں ہم ان سطور میں حکومت کو یہی مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے بڑھتے ہوئے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کرے تاہم اس معاملہ میں حکومت کی جانب سے کوئی امید افزأ منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی تھی۔ اب وفاقی بجٹ کی تیاری کے مراحل میں قومی معیشت کے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی حوصلہ افزأ خبریں یکایک آنا شروع ہو گئیں اور وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ مژدہ جانفرا بھی سنایا کہ ہم نئے ٹیکس لگانے کی آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم نہیں کر رہے۔ اسکے ساتھ ہی شرح نمو چار فیصد تک پہنچنے کی دل خوش کن خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں جس کی تصدیق گورنر سٹیٹ بنک نے بھی کی۔ اپوزیشن قائدین نے اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا اور گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ بیان دیا کہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے عمران خان ان سے روٹی کپڑا مکان بھی چھین رہے ہیں۔ اسکے برعکس گزشتہ روز سٹیٹ بنک نے اگلی سہ ماہی کیلئے اپنی جو مانیٹری پالیسی جاری کی ہے وہ پاکستان کے اقتصادی استحکام اور روشن مستقبل کی عکاسی کر رہی ہے جس کے مطابق پاکستان کی ترقی کا گراف چار عشاریہ آٹھ فیصد رہے گا اور شرح سود سات فیصد برقرار رہے گی۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق معیشت بحال ہوگی اور درمیانی مدت میں افراط زر پانچ سے سات فیصد کم ہو گا۔ اسکے علاوہ وزیر خزانہ نے یہ مژدہ سنایا کہ رواں مالی سال برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت نے 19‘ ارب 63 کروڑ ڈالر کا بیرونی قرضہ ادا کیا ہے۔ انکے بقول ایف بی آر کی ٹیکس وصولی بھی 14 فیصد بڑھی ہے اور غیرسودی اخراجات میں کمی آئی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسدعمر کے بقول ہمارا جی ڈی پی گروتھ کا ہدف چار عشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ اسی طرح وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ آئندہ ماہ جولائی سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہو جائیگی۔
اگر تو یہ عوام کو خوش کرنے کیلئے اعداد و شمار کے ہیرپھیر سے قومی معیشت کی دل خوش کن تصویر دکھائی جارہی ہے تو عوامی اضطراب میں کمی نہ آنے کے باعث ایسے دعوے حکومت کے گلے پڑ سکتے ہیں تاہم گروتھ ریٹ فی الواقع چار فیصد تک جا پہنچا ہے جس کی سٹیٹ بنک نے بھی تصدیق کی ہے تو کرونا کے جاری بحران میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ قرار پائے گا۔ یقیناً اس مبینہ ترقی کا عکس آنیوالے بجٹ میں بھی نظر آئیگا۔ فی الوقت تو عوام کو بدترین مہنگائی اور خوفناک بے روزگاری کا سامنا ہے۔ اگر حکومتی اکابرین کے بقول ملکی معیشت ترقی کی جانب گامزن ہے تو اسکے عوام پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے بھی نظر آنے چاہئیں۔ اس حوالے سے اگلے دو سال حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہیں کیونکہ حکمران پارٹی کو نئے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانا ہے۔ عوام اسکی پالیسیوں سے مطمئن ہونگے تو اسے اقتدار کا نیا مینڈیٹ دینے میں کوئی پس و پیش نہیں کرینگے اس لئے یہ وقت خالی خولی دعوئوں کا نہیں‘ عملی اقدمات اٹھانے کا ہے۔