• news
  • image

پانی کا بحران اور صوبوں کی لڑائی

پانی زندگی ہے زندہ رہنے کے لیے ہوا اور پانی دو بنیادی عنصر ہیں اس وقت ہمیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور ہوا کو ہم نے اپنے کرتوتوں کے باعث آلودہ کر رکھا ہے ویسے پانی کو بھی استعمال کے قابل نہیں رہنے دیا ماحولیاتی آلودگی نے ہر چیز کو متاثر کیا ہے بیماریوں کیعام ہونے کی وجہ بھی ماحولیاتی آلودگی ہے اتنی خوفناک صورتحال کے باوجود ہمیں احساس تک نہیں ذرا سی توجہ اور بہتر مینجمنٹ کے ذریعے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے اس وقت پاکستان میں پانی کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے پانی کے ذخائر ہمارے دونوں بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا ڈیڈ لیول پر پہنچ چکے ہیں اوپر سے یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس بار برف کم پگلنے سے شاید ڈیم نہ بھر سکیں جس کا اثر ہماری زراعت اور خوراک پر پڑے گا ہماری معیشت متاثر ہو گئی ایسے حالات میں قومیں باہمی اتفاق رائے کے ساتھ بہتر مینجمنٹ کے ذریعے حالات سے نبرد آزما ہوتی ہیں بہتر حکمت عملی سے کم تر وسائل میں بھی بہتری کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے اور فالتو وسائل کے ہوتے ہوئے بھی مس مینجمنٹ سے معاملات نہیں چلائے جا سکتے۔
 اس وقت پورے پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اس صورتحال کا مل کر سامنا کرنے کی بجائے دو بڑے صوبوں سندھ اور پنجاب نے لڑنا شروع کر دیا ہے دراصل ہم ہر معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اس وقت پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لہٰذا سندھ نے پانی کے بحران کا سامنا کرنے کی بجائے پنجاب پر الزام تراشیوں کے ذریعے لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پنجاب اور وفاق سندھ کے حصے کا پورا پانی نہیں دے رہے اور شاید سندھ کے ساتھ جان بوجھ کر زیادتی کی جا رہی ہے سندھ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں جو آگے چل کر بیان کیے جائیں گے میرے خیال میں سب سے پہلے سندھ کے الزامات پر وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن بنائے جس میں پانی سے متعلقہ ماہرین بھی شامل ہوں جو طے کریں کہ اصل حقائق کیا ہیں تاکہ الزامات بے نقاب ہو سکیں۔
 پانی کی تقسیم کے حوالے سے پہلے ہی ارسا کا ادارہ موجود ہے جس میں ہر صوبے کا ایک ایک نمائندہ موجود ہے اس کے باوجود شکوک وشبہات پیدا ہونا قابل تشویش ہے بہر حال دستیاب انفارمیشن کے مطابق پچھلے سال آجکل کے دنوں میں تربیلا اور منگلا ڈیم میں مجموعی طور پر 205•6 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود تھا جبکہ اس وقت مجموعی طور پر 641•0 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود ہے جو گذشتہ سال سے 90 فیصد کم ہے ارسا نے اس سال 10فیصد کمی کا کہا تھا لیکن دریائوں میں پانی کے بہائو کی کمی 25 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
 پانی کی کمی کو صوبوں میں طے شدہ معاہدہ 1991 کے فارمولے کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے سندھ میں اس وقت 30 فیصد پانی کے ضیاع کی رپورٹ ہے جبکہ پنجاب کے انڈس زون میں 2فیصد اضافی پانی رپورٹ ہو رہا ہے سندھ کے غیر معمولی پانی کے ضیاع کی وجہ سے صوبوں کو مزید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سندھ کے اعتراض پر ارسا نے متعدد بار بیراجز کی انسپکشن کی جس میں سندھ کے فراہم کردہ ڈیٹا اور ارسا کے ڈیٹا میں واضح فرق پایا گیا۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ سندھ کے ڈیٹا اور ارسا کے ڈیٹا میں کیونکر فرق ہے آئندہ خریف کے سیزن میں پنجاب کو اپنے 2کروڑ 10 لاکھ 71 ہزار ایکڑ پر محیط کمانڈ ایریا کے لیے مجموعی طور پر 22 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے جبکہ سندھ کو ایک کروڑ 20 لاکھ 78 ہزار ایکڑ کمانڈ ایریا کے لیے 17 فیصد کمی کا سامنا ہے تمام تر معاملات کے باوجود 18 مئی کو ارسا نے فیصلہ کیا کہ سندھ کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے منگلا سے 8 ہزار کیوسک اضافی پانی چھوڑا جائے جو کہ ارسا کی منصوبہ بندی اور آئندہ فصل کے لیے منگلا ڈیم کی بھرائی کے طے شدہ طریقہ کار کے منافی تھا 25،30 فیصد کمی کے باوجود ارسا نے سندھ کو پنجند کے ذریعے منگلا ڈیم سے اضافی پانی دینے کا فیصلہ کیا پانی کی کمی کی موجودہ صورتحال میں پنجاب کی تونسہ کی نہروں کی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہیں۔ ان نہروں میں 52 سے 68 فیصد پانی کی کمی ہے۔ اگرچہ پنجاب کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ چشمہ جہلم زون کی آبپاشی کے لیے اپنے حصے میں سے کسی بھی نہر سے پانی لے سکتا ہے لیکن اسے چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ وپنجند لنک کینال سے پانی نہیں لینے دیا گیا اور اس کے نتیجے میں لوئر رنگ پور نہر کی سوا لاکھ ایکڑ اراضی کو پانی نہیں دیا جا سکا پانی کی سنگین کمی کے دور میں بھی سندھ نے اب تک کوٹری بیراج کے نیچے سے 053.0 ملین ایکڑ فٹ 26720 کیوسک پانی سمندر میں چھوڑا ہے۔ اگر سارے صوبوں نے مل کر اس صورتحال کا خاطر خواہ حل نہ نکالا تو پنجاب کے کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ موجودہ بحرانی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاق کی سرپرستی میں تمام صوبوں کو ضرورت کے مطابق پانی دیا جائے۔ ملک میں واٹر ایمر جنسی ڈیکلیر کی جائے، پانی کے ضیاع اور چوری کو فوری طور پر روکا جائے۔ ماہرین کی مشاورت کے ساتھ جس صوبے کو جس وقت جتنا پانی درکار ہو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے۔ پانی کے بحران کی یہ صورتحال ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں دریائے سندھ پر فوری ایک ڈیم کی ضرورت ہے اس کے علاوہ واٹر مینجمنٹ کے ذریعے حالات کو سنبھالا دیا جائے سیلابی پانی کو سٹور کرنے کے لیے ذخائر بنائے جائیں اور ملک کی زراعت اور معیشت پر سیاست نہ کی جائے۔ پانی کے معاملہ کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے ایک دوسرے کی ضرورتوں کا احساس کیا جائے اور ایثار و قربانی کے جذبہ کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن