کشمیری شہداء کے خون سے غداری؟؟؟
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ اِس وقت بھارت سے تعلقات بہتر کرنا کشمیری شہدا کے خون سے غداری ہوگی۔ بھارت پانچ اگست دو ہزار انیس کا اقدام واپس لے تو بات چیت ہوسکتی ہے۔ کئی ہفتوں سے مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ بات چیت کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ اس مرتبہ دونوں ممالک کے مابین مسئلہ کشمیر حل کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب بھارت کے آرمی چیف نے ایل او سی پر سیز فائر کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان بلاوجہ نہیں بلکہ یہ اس بات چیت کا نتیجہ ہے جو دونوں ممالک کئی مہینوں سے کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ رواں برس فروری میں پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کا ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا تھا۔ اس وقت آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ڈی جی ایم اوز کی گفتگو اچھے ماحول میں ہوئی اور دونوں افسران نے لائن آف کنٹرول کی صورت حال کا جائزہ لیا۔ ڈی جی ایم اوز نے دیگر تمام سیکٹرز کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور بنیادی معاملات و خدشات حل کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ سو بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان باقاعدہ طور پر ان مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں دونوں ممالک بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ گوکہ حکومت پاکستان اس کی تردید کرتی آئی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے امکانات کو کم کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج مکنڈ نروانے کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر پاکستان، بھارت تعلقات معمول پر لانے کی جانب پہلا قدم ہے۔ ہم چاہیں گے کہ جنگ بندی جاری رہے۔ فائر بندی سے یقینی طور پر سیکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، سرحدی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کو فائدہ ہوا ہے۔
ان دنوں پاکستان کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے، روزانہ اس حوالے سے بحث ہوتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کا مستقبل اس وقت ہی بہتر ہو سکتا ہے جب ملک میں امن ہو، سرحدیں محفوظ ہوں، ہم غیر متنازعہ ہوں۔ سرحدوں کو محفوظ بنانے، خطے میں پائیدار امن اور وطن عزیز کے دیرینہ مسائل سے نجات حاصل کیے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہونے والے بیک ڈور مذاکرات میں پاکستان نے واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ خطے میں دو ایٹمی طاقتوں کی موجودگی میں جنگ سے ہونے والی عالمی تباہی کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ اس لیے بنیادی مسائل کا حل ہی سب کے مفاد میں ہے۔ پاکستان اسی سوچ کے ساتھ افغانستان میں بھی امن کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور ملک کو دیرینہ مسائل سے نجات دلانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی امن کے لیے کوششوں کو اقوامِ عالم میں سراہا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتیں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے بھارت کے رویے میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ آئندہ ماہ کے وسط میں ازبکستان میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی ملاقات میں بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ ازبکستان میں ہونے والے اس اجلاس کا مقصد تاریخی روابط کو مضبوط بنانا ہے۔ ازبکستان نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں بین الاقوامی رابطے کے اجلاس کے لئے مدعو کر رکھا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان اور بھارت کے مابین اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں سنجیدہ مسائل پر گفتگو کی ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے مذاکرات کا بنیادی حصہ بنایا تھا۔ دونوں ممالک کے مابین ہونے والے مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مثبت پیشرفت پر جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی سیزفائر کو حوصلہ افزا قرار دیا تھا۔ اور دیگر امور پر صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت بنیادی مسائل پر نتیجہ خیز مذاکرات کی کوششوں میں ہیں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کی ممکنہ ملاقات میں مذاکرات اگلے مرحلے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف کے حالیہ بیان کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس دوران یہ صورت حال بھی پیدا ہوئی تھی کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی مقبوضہ کشمیر کے خصوصی دورے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ دونوں ممالک کے مابین 2018 میں بات چیت کا آغاز ہوا تھا۔ اس عمل میں رکاوٹ اس وقت آئی جب اگست 2019 میں بھارت نے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا۔ بھارت کے اس عمل سے دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی بات چیت کا عمل رکا اور پھر تناؤ کی صورتحال پیدا ہوئی۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں پیدا ہونے والی نامناسب صورت حال کے بعد پاکستان کے لیے کسی بھی صورت بات چیت کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔ 2019 دونوں ممالک کے لئے ایک مشکل سال تھا لیکن اس کے باوجود فریقین یعنی پاکستان اور بھارت نے یہ محسوس ضرور کیا کہ برے حالات میں بھی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے بات چیت کی کھڑکی کھلی رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اسی کوشش کو جاری رکھتے ہوئے دونوں ممالک نے 2020 کے موسم بہار میں دوبارہ بات چیت شروع کی۔ دونوں ممالک نے ملاقاتیں اور بات چیت شروع کی تو اس عمل کی کچھ اہم ممالک نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ اہم ممالک کی حوصلہ افزائی اور بات چیت کے آغاز سے تناؤ میں کمی واقع ہوئی۔ یاد رہے کہ اس بات چیت میں بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور علاقے میں بڑھتے ہوئے جبر کو ایجنڈے میں سرفہرست ہی رکھا گیا۔ اس اہم ترین اور بنیادی مسئلے پر بھارت نے پاکستانی دلائل سنے اور تعمیری جواب بھی دیا۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں لانے کے منصوبے کا معاملہ بھی واضح انداز میں اٹھایا۔ اس مسئلے پر بھی بھارتی حکام نے سنجیدہ گفتگو کی۔ مقبوضہ کشمیر میں آزاد سیاسی ماحول کے قیام اور دوبارہ آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنے کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ اس بات چیت میں بھارتی حکام نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول پر آ گئے تو وزیر اعظم نریندرا مودی کشمیر کا دورہ کر کے کچھ ایسے اقدامات کا اعلان کر سکتے ہیں جن سے بنیادی مسائل اور تنازعات حل کرنے لئے بہتر ماحول بن سکتا ہے۔ بات چیت میں پاکستان نے غیر ریاستی اور ہر سطح پر امن دشمنوں کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ان مذاکرات اور بیک ڈور ملاقاتوں کا براہ راست نتیجہ ایل او سی پر 2021 کے شروع میں سامنے آیا۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے کشمیر بارے اپنی اصولی پوزیشن سے پیچھے نہ ہٹنے اور اصولی موقف اپناتے ہوئے کشمیریوں کے لئے زندگی کو آسان بنانے اور انہیں مسائل سے نکالنے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا بلکہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔ اب بات چیت کو اگلے مرحلے میں لے کر جانا ہے۔ دونوں ممالک کی سیاسی و عسکری قیادت کا امتحان ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والی مثبت پیشرفت کے بعد وہ دنیا کے سب سے اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر کوئی نرمی یا موقف میں تبدیلی واقعی نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو دیگر مسائل کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔ کشمیریوں کے لیے زندگی آسان بنانے کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔