این سی او سی تجاویز مسترد کرنا خود غرضی،میڈیا سے متعلق بل کی ضرورت نہیں
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
سیاسی جماعتیں این سی او سی کا ساتھ دیں، صحافتی تنظیموں کے پاس مجوزہ حکومتی بل کو مسترد کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، این سی او سی ایک ایسا ادارہ ہے جو کرونا کے دوران ملک کو مسائل سے بچانے اور عام آدمی کی زندگی کو معمول پر لانے کے لیے کام کر رہا ہے وسیع تر قومی مفاد میں این سی او سی کو متنازع بنانے کے بجائے اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے اور ملک میں زندگی کو جلد معمول پر لانے کے لیے این سی او سی کی تجاویز کو نظر انداز کرنا نامناسب اور خود غرضی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا کہ این سی او سی کا آزادکشمیر کے الیکشن سے کیا تعلق ہے۔ یہ سوچ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتی، این سی او سی کا الیکشن سے کوئی تعلق نہ بھی ہو وہاں کے انسانوں سے تو اس کا تعلق ہے۔ الیکشن سرگرمیوں میں احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد نہ کرنے کا خمیازہ ہم پہلے بھگت چکے ہیں۔ انتخابات اہم ہیں لیکن کیا کرونا سے بچنا ضروری نہیں، سیاسی جماعتوں کو کم از کم ایسے حالات میں سیاسی مفادات کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے وفاقی حکومت کا مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈ?ننس مسترد کر دیا ہے۔ میڈیا کے پاس اس بل کو مسترد کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جب تک اس معاملے میں اتفاق رائے نہیں ہوتا ایسی کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت میڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تمام صحافتی تنظیموں کے ساتھ بات چیت کرے، قانون سازی بہتری کے لیے ہو تو خیر مقدم ہوتا ہے کسی بھی قانون سازی میں جہاں لوگوں کو قابو کرنا مقصود ہو وہاں انتشار پھیلتا ہے۔ کیا حکومت انتشار کی متحمل ہو سکتی ہے، کیا حکومت آج کے جدید دور میں میڈیا کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔ معلومات کے ذرائع بہت بڑھ چکے ہیں لہٰذا حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا ایسے کسی بھی بل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔صحافتی تنظیموں نے آرڈیننس کو آزادی صحافت پر حملہ اور غیر آئینی اور قرار دیا ہے۔ تنازعات میں گھری حکومت قوت خرید بڑھنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ چار فیصد گروتھ کے ہندسوں سے عام آدمی کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی اس لیے اصل قوت خرید وہ ہے جب غریب بھوکا نہیں سوئے گا۔ اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو روکنا ہے کیونکہ حکومت نے فی الحال لیوی اور ٹیکس کی مد میں کمی کرکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو روک رکھا ہے۔دوسری طرف ایک جانب عالمی سطح پرقیمتوں میں اضافہ کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 30فیصد لیوی ٹیکس کا معاہدہ کر رکھا ہے ۔ان حالات میں حکومت کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں روکنا ممکن نہیں ہوگا اور اگر حکومت قیمتیں نہ روک سکی تو بجٹ کے بعدمہنگائی کا نیا طوفان آئے گا