آہ ! ڈاکٹرنواب محمد خان
ایک حلیم طبع، باوضو ،با شرع انسان، اخلاقیات کا چلتا پیکر، جو 1972 ئ1975 ء تک قائداعظم میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے آخر ہمیں حھوڑ ہی گئے۔ خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت راہ پچیس مئی 2021ء اس عظیم ہستی نے پر سکون انداز میں اپنی جان اتفاق ہسپتال لاہور میں جان آفریں کے سپرد کر دی۔اور وہ ایک عظیم باب بند ہوگیا جس دور میں اس شخصیت نے خود اپنے ہاتھوں سے کالج کی زمین پر ایک مزدور کی طرح بھی کام کیا اور اس وقت کے لق و دق صحرا کو پہلے وائس پرنسپل کے طور پر اور بعد میں پرنسپل کے طور پر ایک فیملی ،اور ایک گھر کی سی شفقت اور انس سے چلایا۔اس کالج کے پہلے بانی پرنسپل ، علمدار حسین بھی بلاشبہ ایک نابغہ روز گار شخصیت تھے ۔ نواب محمد خان انڈیا کی ریاست کرنال سے اٹھ کر بعد ازاں دیال سنگھ کالج ، نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس ، بعد ازاں ایم فل کراچی سے اور برطانیہ سے پی ایچ ڈی کر کے پاکستان میں پہلے کنگ ایڈورڈ، اور بعد ازاں بہاولپور میں تعینات ہوئے۔آج اس دنیا میں ان کے تمام شاگر د ان کی اس جدائی کے غم میں ہیں اور کہہ رہے ہیں ، جاتے ہوئے کہتے ہو کہ قیامت کو ملیں گے، کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔ اپنی چوراسی سالہ زندگی میں ، صوم و صلوۃٰ کے پابند ہونے کے ساتھ ، وہ ایک انسانیت دوست ، غریب پرور اور ہمدرد صفت انسان تھے۔خدا ان پر رحم فرمائے اور انکے تما طلبعلم،جاننے والے گھر والے میری اس دعا میں شریک ہوں گے کہ وہ جنت میں بھی اعلی درجے پر فائز ہوں۔ ان کے دور میںجب کے کالج ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں تھا ، ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور ہم میلوں پیدل جایا کر تے تھے کالج کی اپنی عمارت تک نہیں تھی،اس شخص نے خلوص دل سے کالج کے ہر شعبے کی طرف توجہ دی اور مسائل کو حل کرنے میں کمال حوصلہ اور ہمت سے کام لیا۔ایک ٹیچر کی حیثیت سے ان کا لیکچر لاجواب ہوتا ،وہ انتہائی دھیمے انداز میں سمجھاتے اور ڈکٹیٹر کی بجائے پدرانہ شفقت سے پیش آتے۔غرض وہ جہاں بھی گئے ، داستاں چھوڑ آئے، اسی لئے مر گئے وہ تو زمانے نے بہت یاد کیا۔بشری کمزوریوں کے با وصف جو کسی بھی انسان سے سر زد ہوسکتی ہیں، اکثر اوقات وہ دوسرے تمام کی رائے کا احترام کرتے لیکن میرٹ پر کم ہی سمجھوتہ کرتے اس وقت کے پنجاب کے مرد آہن کہلانے والے گورنر کھر تک ان کی رائے کو وزن دیتے ان کے ساتھیوں میں ڈاکٹر مشتاق ، شبیر ناڑو، ڈاکٹر لقمان ، ڈاکٹر ذوالفقار برق ،ڈاکٹر بابر، انیس ماجھواور طلبہ میں راقم کے علاوہ سا بق پرنسپل اعجاز شاہ، ابوالفضل، ابوبکر، اشرف سلطان، سمیع اللہ شیخ ، مظفر سلطان اور گلوب میں پھیلے ہوئے ان کے طلبہ کی ہے۔
وہ سیاسی پارٹیوں کی سیاست سے سٹوڈنٹس کو اجتناب کا کہتے اور راقم اگرچہ یو ایس ایف جو کہ ایک سٹوڈنتس ونگ کی لوکل سیاسی پارٹی تھی صدر تھا ، اور ایگل وغیرہ جو کہ غیر سیاسی گروپ تھے اور جن کی قیادت شفقت نیازی ، خالدا قبال کر رہے تھے مل کر الیکشن لڑتے اور کبھی کوئی تشدد آمیز واقعات نہ پیش آئے بعد میں حالات ضرور خراب ہوئے لیکن اس وقت شاید ہمارے پرنسپل نواب صاحب نہ تھے اور وہ کالج کی اندرونی سازشوں اور نوکر شاہی کی ریشہ دوانیوں جو ان کے خلاف ذاتی عناد اور حسدکے سبب تھیںکی وجہ سے ملک چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے اور آخر تک واپس نہ آئے اور یہ ملک اس جیسے عظیم استاد کی قابلیت سے محروم رہا لیکن ان کا رابطہ ان کے عزیز طلبہ سے آخر تک قائم رہا۔ راقم کی ان سے آخری ملاقات جنوری 2020ء میں یو ایچ ایس کے آڈیٹوریم میں ڈاکٹر سمیع اﷲ شیخ نے کروائی تو ان کی پدرانہ شفقت بھری نظریں آج بھی میرے دل و دماغ پر نقش ہیں جیسے وہ اپنی ضعیف عمرکے باوجود کہہ رہے ہوں کہ مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا ، تمیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ انکے بارے میں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں …؎
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دئیے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنھیں خاک چھان کے
اور آج انکی رحلت پر ان کا ہر سٹوڈنٹ اس کیفیت میں ہے۔
ان آنسوؤں کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا
جن آنسووئں سے ہم نے فسانے بنا لئے
وہ صورتیں الہیٰ کس ملک بستی ہیں
اب دیکھنے کے جن کو آنکھیں ترستی ہیں