پاور تھرسٹ
یہ آج کا نہیں بلکہ اس دن سے جس وقت سے یہ دنیا وجود میں آئی المیہ چلا آ رہا ہے کہ ہر ذی روح چاہے وہ انسان ہو یا حیوان، اسکی غلبہ حاصل کرنے کی جبلت ہمیشہ اپنے نقطہ عروج پر رہی ہے حالانکہ انسان جسکو اللہ کے گھر سے اسکی عقل اور ظرف کی بدولت اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہوا۔ اس سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی ان دو صفات عقل اور ظرف کی بدولت سماجی انصاف قائم کرنے کیلئے اس aggression کی پالیسی سے اجتناب کریگا لیکن اسے یا تو بدقسمتی کہیے یا شیطانی وسوسہ کا کمال کہ ہر دور کے انسانوں کی غالب اکثریت نے ہی سب سے زیادہ اس جارحیت کی پالیسی کا ارتقاب کیا ہے۔ زمانۂ اسلام سے قبل کی تاریخ اْٹھا کر دیکھ لیں کہ جب قومیں ایک دوسرے کیخلاف جارحیت کی مرتکب ہوتیں تو وہ کس بیدردی اور ظلم کی مرتکب ہوتیں۔ یہ دینِ محمدیؐ کا کمال تھا کہ جس نے اپنے ظہور کے ساتھ ہی جہاں زمانہ امن میں ایک طرف سماجی معاشرتی اور معاشی توازن پر زور دیا وہاں جنگوں کی صورت میں بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ ان حالات میں بھی عام سول آبادی کو کسی قسم کی ایذا یا نقصان کا نشانہ نہ بنایا جائے بلکہ اس بابت اس حد تک زور دیا کہ سول املاک اور فصلوں کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ کے دور میں جب اسلامی خلافت کا دائرہ 22,00,000 مربع میل تک پھیلا تو اس دوران پوری دنیا نے اسکا عملی مظاہرہ بھی دیکھا جبکہ اسکے مقابل اگر دیگر اقوام کی تاریخ اْٹھا کر دیکھ لیں تو جس قسم کے ظلم اور درندگی وہاں عبارت ہے اور جسکا کلائمیکس جنگ عظیم دوئم میں دیکھنے کو ملتا ہے وہاں انسانیت تو درکنار شائد حیوانیت بھی پناہ مانگتی نظر آتی ہے۔ کہنے کو تو 1945ء میں جب جنگ عظیم دوئم کا اختتام ہوا اور اقوام متحدہ کے ادارے کا قیام عمل میں آیا تو اس جارحیت کے عمل کے سدِباب کیلئے متعدد ذیلی اداروں کا قیام عمل میں آیا اور جنگی جرائم کی زد میں آنے والے بیشتر اقدامات کی نشاندہی بھی کی گئی لیکن زمینی حقائق آج بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس۔ پچھلے ستر سالوں سے کشمیر اور فلسطین میں ریاستی سرپرستی میں ہونیوالے جرائم اسکی واضع مثال ہیں کہ تمام دستاویزی ثبوت ہونے کے باوجود شخصی آزادی کے تحفظ کا دم بھرنے والی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں خاموش نظر آتی ہیں اور ان دو ممالک بھارت اور اسرائیل کا عالمی سطح پر غلبہ دیکھ کر یہ تاثر یقین کی حد تک پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جتنے بڑے پیمانے پر کوئی ملک جتنا ہلاکت خیز مواد اکٹھا کر لے گا اسکی بقاء اس لحاظ سے اتنی مضبوط ہو گی اور اسکے توسیع پسندانہ اقدامات کو اتنی ہی تقویت ملے گی جسکا نتیجہ دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ روایتی جنگی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ غیر روائیتی جنگی ہتھیاروں کی ایجادات میں بھی تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے جس میں زہریلی گیسوں کے ساتھ ساتھ اب جراثیمی ہتھیاروں پر زور دیا جا رہا ہے۔
نومبر 2019ء میں جب چائنہ کے شہر ووہان سے کورونا وائرس کی وباء کا آغاز ہوا تو اسکے ساتھ ہی مختلف کانسپریسی تھیوریوں کے ساتھ جس تھیوری نے زیادہ شہرت حاصل کی وہ تھا سابق امریکن صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ الزام کہ یہ وائرس چائنہ کی لیبارٹری میں تیار ہوا ہے۔ شواہد کی طرف جائیں تو جس تیزی کے ساتھ تین چار ماہ میں چائنہ نے اس آفت پر کنٹرول حاصل کر لیا اور اسکے مقابل باقی دنیا میں ہونے والی تباہی اور تنزلی پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس بابت بیشمار سوالات نہ صرف جنم لیتے ہیں بلکہ لاتعداد تحفظات بھی سر اْٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اسی بابت پچھلے کچھ دنوں سے مغربی میڈیا میں بڑے زور و شور سے ایک نہ ختم ہوتا مکالمہ شروع ہو چکا ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی مرر Miror تیس مئی کی اپنی بریفنگ میں لکھتا ہے کہ ایک سٹڈی کے مطابق جو کہ کچھ سائنسدان اگلے چند روز میں شائع کرنیوالے ہیں، کورونا وائرس چائنہ کے سائنسدانوں کی ایجاد ہے جنھوں نے اسکے کھوج کے راستے بند کرتے یہ عْذر پیش کیا کہ یہ چمگادڑوں سے انسانوں کو منتقل ہوا اس سلسلے میں برطانوی سائنسدان پروفیسر Angus Dalgleish اور نارویجن سائنسدان ڈاکٹر Birger Sorense کا نام سامنے آ رہا ہے جنکی تحقیق کے مطابق اس بات کے بہت کم امکانات پائے جاتے ہیں کہ کووڈ 19 کسی قدرتی عمل کی تخلیق ہے۔ انکے دعوی کیمطابق یہ وائرس اس وقت سامنے آیا جب چائنہ کی ایک لیب میں ایک پیتھوجن میں وہاں کے سائنسدان کچھ تبدیلیاں لا رہے تھے۔ میل ان لائن کی رپورٹ کیمطابق وہ یہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ ان سائنسدانوں نے یہ بھی کوشش کی ریورس انجینئرنگ کے ذریعے اسے اس طرح بنایا جائے کہ جیسے یہ چمگادڑ کے ذریعے منتقل ہوا۔ یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ برطانوی انٹیلی جنس بھی اس سلسلے میں امریکن ایجنسیوں کی معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مدد کر رہی ہیں جس کی تصدیق ٹیلیگراف اخبار بھی کر رہا ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے مارچ کے مہینے میں امریکہ برطانیہ اور بارہ دوسرے ممالک اس بابت ڈبلیو ایچ او کے رول کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور اب دنیا کے اٹھارہ ٹاپ epidemiologist نے journal Science میں اس بات کی ڈیمانڈ کی ہے کہ اقوام متحدہ اسکی حقیقت جاننے کیلئے آزادانہ انکوائری کرائے۔