کچھ یادیں کچھ باتیں عزیز ظفر آزاد مجھ پر تحقیق میرے بعد کرے گی دنیا
مجھے سمجھیں گے میرے بعد زمانے والے
ایک انتقال کے بعد آپ زمین کے مالک ہوتے ہیں تو دوسرے انتقال کے بعد زمین آپ کی مالک بن جاتی ہے ۔یہ قدرت کا قانون ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اسے جانا ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے قریبی رشتے بالخصوص والدین ہمیں کبھی چھوڑ کر نہیں جائیں گے جنہوں نے ہمیں پیدا کیا تربیت کی اور اس قابل بنایا کہ ہم زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر بہترین انسان بن سکیں پھر ان کا یوں اچانک چلے جانا ایسا ہے جیسے وقت کا رک جانا ، ہر شے کا ختم ہو جانا ، قیامت برپا ہو جانا اور جیسے حقیقت کاخواب لگنا یہ تمام کیفیت وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے اپنے پیاروں کو کھویا ہو۔
یہ حقیقت 4جون 2020کو ہم پر عیاں ہوئی کہ باپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ والد محترم عزیز ظفر آزاد (مرحوم) جن کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا آج بھی ان کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ میں کپکپاہٹ اور آنکھیں نم ہیں۔ وہ اپنی اولاد کی شکلوں سے ان کی پریشانی بھانپ لیتے تھے۔ بچوں کی غلطیوں پر انہیں ڈانتے پھر تھوڑی بعد ان سے کہنا کہ میرا لہجہ سخت تھا مجھے دکھ ہے مجھے معاف کر دو ۔ اکثر بیشتر شدید گرمی میں بغیر پنکھاچلائے کمرے میں ہوتے ۔بچوں نے کہنا کہ آپ ہارٹ اور شوگر کے مریض ہیں پنکھا تو چلا لیں ۔جواب میں وہ فرماتے کہ کتنے لوگ اسی شدید گرمی میں فٹ پاتھوں پر ہیں۔میرے سر پر تو چھت ہے میں اللہ کو کیا جواب دوں گا ؟ اورکیا تم میری قبر میں اے سی یا پنکھا لگوا کر دو گے ؟صوم و صلوۃ کے اتنے پابند تھے کہ رمضان میں راتوں کو قیام کرتے اور دن میں روزے رکھتے ۔طبیعت کی شدید ناسازی کی وجہ سے جب ان سے کہا جاتا کہ روزے نہ رکھیں تو فرماتے کہ میں نے زندگی میں کبھی روزے نہیں چھوڑے ، شاید میری زندگی کا آخری رمضان ہو ، یہ میرا اور میرے اللہ کا معاملہ ہے اس میں دخل اندازنہ ہوں۔
وہ سچے اور مثبت سوچ کے حامل صحافی تھے ۔اول اول تو وہ روزنامہ " دن" میں کالم لکھا کرتے تھے بعدازا ں ان کے رفیق خاص جناب مجید نظامی کی خواہش پر نوائے وقت میںکالم نگاری شروع کی ۔ان کے لکھے ہوئے کالم ہر خاص و عام میں مقبول تھے ۔ نفاذ اردو کے لئے ان کی جدوجہد ہر ایک کے لیے مشعل راہ ہے ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ جتنی بھی عظیم قومیں ہیں انہوں نے ہمیشہ دنیا میں مقام اپنی قومی زبان کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔نفاذ قومی زبان کے لیے وہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں بحیثیت محمد علی جناح کے سچے سپاہی کے طور پر مقدمہ لڑا اور اللہ کے فضل و کرم سے فیصلہ حق اور سچ کا ہوا ۔نفاذ اردو کے سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں میں منعقدہ کانفرنسز اور سیمینار میں بطور صدر شرکت فرماتے اور نوجوان نسل کو وطن اور قومی زبان سے محبت کے لیے متحرک کرتے ۔آج بھی ان کے دوست و احباب ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں مشاہیر پاکستان پر لیکچر دینا اور نوجوان نسل میں حب الوطنی کے جذبے کو اجاگر کرنا اور انہیں وطن عزیز کی قدر و منزلت کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے تھے۔
آپ سید شاہ مردان شاہ پیر پگارو کے دیرینہ ساتھی تھے ۔ وہ ان کی طلسماتی شخصیت اور قربانیوں پر اکثر کالم لکھا کرتے تھے۔ اور فنگشنل لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔کاشف نظامانی سے کافی دوستی تھی ۔پیر جو گوٹھ حاضری دے کر سانگھڑ جاتے تو فقیر شاہ نواز نظامانی کے کتب خانے کا معائنہ کرتے اور انہیں داد دیتے اور اکثر کہتے کہ شاہ نواز درویش صفت انسان ہیں ۔ راقم کو یاد ہے کہ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے بارے میں ان کے یہ الفاظ تھے کہ اگر کسی تقریب میں نظر آئیں تو اسٹیج سے اتر کر مجھ سے ملنے آتے اور گلے لگ کر کہتے عزیز بھائی سب خیریت ہے آپ بس حکم کیجئے۔ اسی طرح میاں محمود الرشید ، فرید پراچہ ، کامل علی آغا، اعجاز چودھری اور اختر رسول سے بھی برادرانہ مراسم تھے ۔ہر خوشی و غم میں شریک ہوتے ۔
قارئین کرام ۔والد محترم ہر رشتے میں اپنی مثال آپ تھے ۔میرے الفاظ کم پڑجائیں گے مگر ان کی باتیں یادیں کبھی کم نہیں ہو سکتیں۔اسلام اور حب رسول ﷺ ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔جب ان کے سامنے آنحضرت ﷺ،اہل بیت یا صحابہ کرام ؓ کا ذکر خیر آتا تو ان کی آنکھیں نم ہو جایا کرتی تھیں ۔