امید سحر کی بات کرو
مجھے ہمیشہ اپنے لوگوں کے حوصلے اور ہمت سے محبت رہی ہے اور یہ اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے یہ قوم کبھی مشکلات سے گھبرائے گی نہیں اور نا ہی اپنی امید ہارے گی بلکہ آپ ان کو جتنا دبائیں گے یہ اتنے ہی اُبھر کر اور زیادہ نکھریں گے۔ مگر گزشتہ چند سالوں میں پہلے ہمارے مین اسٹریم میڈیا میں کچھ ایسے لوگ آئے جنہوں نے ہر وقت لوگوں کو مایوسی اور اندھیروں کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی اور بعد ازاں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی صرف کرسی اور اقتدار کے حصول کیلئے ملک کی عزت ، حرمت نیز جو پیش پڑا سب کچھ دائو پر لگانا شروع کر دیا۔ ان جماعتوں نے اپنے فُل ٹائم میڈیا سیل تشکیل دئیے جو کہ ہر وقت ملک اور ریاستی اداروں کیخلاف منفی پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں ۔ خصوصاً پاکستان کے دو بڑے سیاسی خاندانوں نے اپنی دولت بچانے اور اقتدار کے حصول کیلئے جس حد تک گِر سکتے تھے گِر گئے۔انہیں عوام کے جذبات اور خیالات کے مجروح ہونے سے کچھ نہیں، ان کا مقصد صرف اپنے عزائم کی تشکیل ہے ۔ مگر اس سب کے بعد ملک میں ان لوگوں نے ایسے ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی ہے اور کچھ ایسے لوگ جو ان کی اندھا دھند تقلید کرتے ہیں وہ بھی انکے ساتھ شامل ہو کر سوشل میڈیا پر وہ’’ گُل کھلار‘‘ رہے ہیں کہ کچھ نہ پوچھیں۔ کل جب تاجکستان کے صدرِ مملکت پاکستان آئے اور پاک فضائیہ کے شاہینوں نے انہیں پاک فضائوں میں جے ایف 17تھنڈر پر خوش آمدید کہا تو اس پر بھی کچھ ایسے منحوسوں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں کا تذکرہ شروع کر دیا۔اسی اثنا ء میں کل وفاقی وزیر اطلاعات نے ایک میزبان کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں سمجھایا کہ اپنی کرڈیبیلیٹی کو خراب مت کریں مجھے کال کریں اور خبر کی تصدیق کروا لیا کریں، پورا دن عوام کو جھوٹے واٹس ایپ میسجز کی بنیاد پر پریشان نہ کریں۔ دیکھا جائے تو وزیر صاحب نے ہلکی آنچ پر کافی سیدھی سیدھی سی کر دی ، اور یہ کرنا اب ضروری ہو گیا ، مگر ہمارے ان تجزیہ کاروں کو آج سے پہلے ایسے جواب سننے کی عادت نہیں ہے اس لئے ایسے جواب سنتے ہی یا تو بات کو بدلیں گے یا آپے سے باہر ہو جائینگے۔ مگر ایسے اب زیادہ نہیں چلے گا۔ میں نے جس دن فواد چوہدری نے اس وزارت کا قلمدان سنبھالا تھا اسی دن کہا تھا کہ جناب اب آپ کو سیدھی انگلی سے گھی نکالنے والی پالیسی ترک کرنا پڑیگی۔ دیکھا جائے تو حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں جب پورے کرئہ ارض پر موت کا سیایہ ہے اور بڑی بڑی معاشی قوتیں ٹوٹ کر گِر رہی ہیں، انتہائی نامساعد حالات کے باوجود پاکستان ہردن ہر پل ترقی کی نئی منزلیں طے کرتا ہوا ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن ہے۔ اب جبکہ بھارت میں کرونا اور اسکے ساتھ دیگر وبائی امراض نے ملک میں تباہی مچا دی ہے وہیں پاکستان نے کرونا کی پہلی ، دوسری کیا تیسری لہر کو بھی کامیابی سے پچھاڑ دیا ہے ۔ انفیکٹ مجھے تو کرونا بھی بھارتی فضائیہ کے طیاروں کی طرح محسوس ہوتا ہے جس کا ہر وار ہم ناکام بنا رہے ہیں۔مزید اب پاکستان نے خود سے ویکسین بنانا شروع کر دی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی تمام پاکستانی ویکسنیٹیڈ ہو جائینگے۔ اسکے ساتھ ساتھ معاشی سطح پر گزشتہ سال جہاں ہم فیصل آباد میںکپڑے کی صنعت کو ایک نئی زندگی ملنے کی بات کر رہے تھے ، اس سال پورے میں تمام چھوٹی بڑی صنعتیں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور کئی دنوں سے اپوزیشن اب اپنا منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور انہیں کوئی ایسا کارگر حربہ نہیں مل رہا کہ وہ حکومت پر کیسے وار کریں؟ ابھی کل پرسوں ہی ایک پریس کانفرنس میں مفتاح اسماعیل ملک کی خراب معیشت کا رونا روتے ہوئے اس وقت سٹپٹا گئے جب ان سے ایک صحافی نے ان کی ذاتی کمپنی میں کمائے جانے والے دوگنے منافع کا پوچھا ۔ اب جناب فواد چوہدری سے گزارش ہے کہ وہ ذرا دیگر قائدین کے کاروبار میں ہونے والے منافع کی تفصیل بھی جلد عوام کو فراہم کریں، اور مرغی کے کاروبار سے جڑے ٹائیکونز کو بھی ذرا عوام کے سامنے لائیں۔
عمران خان پر پہلے دن سے یقین تھااور اب یہ یقین ہر آنیوالے دن کے ساتھ ساتھ اور زیادہ مستحکم ہوتا جا رہا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ چند سالوںمیں ملک میں افراطِ زر کو کنٹرول کر لیا جائیگا اور اسکے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کو بھی جہاں صحت کارڈ اور سستے گھر مل رہے ہیں مہنگائی میں بھی ریلیف ملے گا۔مگر اب جو حالات ہیں ان میں میری چوہدری صاحب سے گزارش ہے کہ جناب آپ فرنٹ فٹ پر بہت اچھا کھیل رہے ہیں اور اچھے چھکے چوکے مار رہے ہیں مگر جب بجٹ آنیوالا ہے اور اس موقع پر مخالف ٹیم کی جانب سے شدید ٹیمپرنگ کا امکان ہے اور ممکن ہے کہ کچھ لوگ میچ فکس تو نہ کر سکیں مگر سپاٹ فکسنگ کی بہرحال وہ کوشش ضرور کرینگے، اگر آپکو یاد ہو کھلاڑیوں کی معصومیت اور بھول پن کے باعث سپاٹ فکسنگ کی وجہ سے پاکستان کو پہلے بھی بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔