چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد مسند انصاف پر متمکن انتہائی نفیس ،قابل قدر اور عالی ظرف شخصیت ہیں۔ کرونا کے دوران عوام کو میسر ناکافی سہولیات پر ان کا ازخود نوٹس عوام دوستی کا لازوال احساس ہے۔
پاکستان ریلوے کو در پیش خسارے سے متعلق ازخود نوٹس ، ٹریکس پر تجاوزات کی ممانعت ، متاثرہ افراد کی بحالی اور کڈنی ہل پارک سے متعلق محترم چیف جسٹس کے تاریخ ساز فیصلوں سے ان کا نام سنہری حروف میں جگمگاتا رہے گا۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان کی علم دوستی اور انسانیت سے محبت پاکستانی عوام کے لیے نہ صرف ڈھارس کا سامان ہے بلکہ اس یقین کا احساس بھی ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسی شخصیت موجود ہے جس پر اعتماد معاشرتی بدحالی اور بدنظمی کو جڑ سے مٹا دے گا۔
محترم چیف جسٹس انسانی اور مساوی حقوق کے ناطے سے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بھی ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لینا چاہئے کیونکہ سات اپریل کے نوٹیفکیشن کے باعث 1200کے قریب اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف دربدر ہونے کے خدشے سے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔خاص طور پر جولائی سے تنخواہ بند کرنے کی دھمکی فاقہ کشی کا خوف دلا رہی ہے۔اس فیصلے سے نہ صرف کئی خاندان متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ملازمین میں بد دلی پھیل چکی ہے جو کسی طور خوش آئند نہیں۔
مزید یہ کہ یہ فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان ملازمین کی تعنیاتی آرڈیننس کے منافی ہے اور انہیں ان کے محکمہ H.E.D. میں بھیج دیا جائے۔
باوجود اس کے کہ اس آرڈیننس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ اجرا کی تاریخ کے چار ماہ بعد خود بخود کالعدم ہوگیا۔ لہٰذااس کی بنیاد پر مذکورہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ متعلقہ ملازمین تو اپنی مخصوص کردہ سیٹوں پر انتہائی لگن سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مشغول ہیں اور کرونا کے دنوں میں بے جا نقل و حرکت سے گریز پا ہیں لیکن اس نوٹیفکیشن نے 1200 خاندانوں کی زندگی درہم برہم کرکے رکھ دی ہے اور ہمیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہورہی۔
2002میں جب لاہور کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو اس کالج میں ملازمت کرنے والے تمام ملازمین یونیورسٹی کے ملازمین تصور کیے گئے اور ان کی تنخواہیں پنجاب حکومت کے ذمے ہی رہیں۔ اس کے علاوہ 2002 کے بعد سے مذکورہ نوٹیفکیشن تک جتنے ملازمین بھی تعینات کیے گئے وہ تمام یونیورسٹی کے ملازم تصور کیے گئے کیونکہ انہیں مخصوص سیٹوں پر تعینات کیا گیا اور ان کی تنخواہوں کا بجٹ بھی پنجاب حکومت ادا کرتی رہی جس کو اب روکنے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 18 کی رو سے فرد کا بنیادی حق ہے کہ وہ قانون کے مطابق کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتا ہے۔گزشتہ 19سالوں میں حکومتی ملازمین کی وہاں موجودگی قانون و آئین کے مطابق تصور کی جاتی رہی ہے اور ان کی تنخواہ بھی باقاعدہ منظور شدہ بجٹ سے ادا کی جا رہی ہے۔ یہ عمل قابل ذکر ہے کہ جب ایک بار گورنمنٹ نے ان کا بجٹ بھی پاس کر دیا اورملازمین کو تنخواہ بھی ملتی رہی تو وہ یونیورسٹی کے ہی ملازم تصور کیے جائیں گے۔لہذا ان ملازمین کو یکم جولائی 2021 سے یونیورسٹی کا ملازم تصور نہ کرنا اور انھیں واپس بلانا قانون کے خلاف اور جبر کے تحت شمار ہو گا۔
اس طرح آئین کی شق 25 اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ تمام شہریوں سے مساوی سلوک برتا جائے گا نیز قانون کی نگاہ میں وہ سب برابر اور مساویانہ مراعات کے حق دار ہوں گے۔
2002 سے مذکورہ نوٹیفکیشن تک جو بھی ملازمین ریٹائرمنٹ تک پہنچے وہ یونیورسٹی ملازمین ہی تصور کیے گئے اور ان کی پنشن بھی پنجاب حکومت کے بجٹ سے ادا کی جا رہی ہے۔آئین کی نظر میں ملازمت کی مدت پوری کرنے والے اور آج کے ملازمین، جن کے خلاف مذکورہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، مساوی حقوق کے حق دار ہیں۔اس لیے بھی یہ نوٹیفکیشن بنیادی حقوق نمبر 25 کی صریح خلاف ورزی ہے۔اس تناظر میں مذکورہ نوٹیفکیشن 2021 کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں ہے اور یہ ملازمین کو ہراساں کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
خاص طور پر وہ ملازمین جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں۔اس لئے فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کوسو موٹو ایکشن لے کر ان ملازمین کی دادرسی کرنی چاہئے۔ اور انہیں دربدر کرنے والا متعلقہ نوٹیفکیشن معطل اور خلاف آئین قرار دے دینا چاہئے تاکہ ان ملازمین کا بڑھاپا خراب ہونے سے بچ سکے۔
٭…٭…٭