ٹیکس گوشواروں کو آسان بنایا جائے
مکرمی! ایک طرف ایف بی آر ٹیکس گزاروں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا دعوی کرتے نہیں تھکتا ہے مگر اسے آسان کرنے کی بجائے اسے مزید پیچیدہ کرنے کے ساتھ کچھ مزید مسائل اور مطالبات بڑھا کر ٹیکس گزاروں کو مزید الجھن میں ٹھونس دیتا ہے۔ مثلا کہنے کو تو وہ سالانہ گوشوارہ آمدن کو آسان کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ پہلے سے بھی مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔نیت بلاشبہ درست ہی ہوگی مگر بات ہے عمل اور اسکے نتیجہ کی کہ ٹیکس گزار کو کچھ فائدہ ہوا کہ نہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ پھر اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ٹیکس پروفائل کے نام پر ایک اور گوشوار ہ نما جن چھوڑ دیتا ہے۔ کیا ٹیکس گوشوارہ کافی نہیں تھا کہ ٹیکس پروفائل کے نام پر ٹیکس گزار کو مزید اُلجھن اور مصیبت میں ڈال دیا؟ یوں لگتا ہے کہ ایف بی آر اور ٹیکس بارز نے ملی بھگت سے وکیلوں اور چارٹرڈ اکائونٹس وغیرہ یعنی گوشوارے بنانیْ بھرنے والوں کا پیٹ بھرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ورنہ گوشوارہ آمدن میں لی گئی معلومات کے بعد اس :پکھنڈ بازیـ: کی کیا ضرورت تھی؟ انہی وجوہات کے سبب ہی تو عام لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے کتراتے اور جان چھڑاتے ہیں اور ٹیکس اہلکاروں کی مٹھیاں گرم کرتے ہوئے رشوت ستانی کوپروان چڑھاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں خصوصا مغربی ملکوں میں گوشوارہ داخل کرنے کے بعد جس کا دیا گیا ٹیکس زائد یعنی ریفنڈ بنتا ہے وہ خود ہی اسے فوراً واپس دے دیتے ہیں مگر یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ خود بخود دینا تو دور کی بات ، مانگنے پر بھی نہیں دیا جاتا بلکہ ہر اہلکار اپناحصہ مانگنے اور لینے کی قسم کھائے بیٹھا ہوتا ہے۔ خدا را کچھ خیال کیجییٔے تا کہ ٹیکس گزاروں کو سہولت حاصل ہو اور ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے ٹیکس ادا کرنے کا شعور اور کلچر پیدا ہو اور عوامی تکالیف کم ہو سکیں۔ (میاں محمد رمضان ٹائون شپ ، لاہور)