• news
  • image

مودبانہ گذارش ہے کہ۔۔۔۔

گذشتہ تقریبا ایک سال سے یہ منظر دیکھنے کومل رہاہے ۔کروناوائرس کے آنے کے بعد سب سے پہلے "ماسک"ناپید ہوگئے۔
اس سے پہلے یہ شاہراہوں اور خاص طورپر چوراہوں میں دس روپے میں بکتا تھا مگر گاہک کہیں شازونادر ہی ہوتے۔جونہی کرونا سے بچائو کیلئے ماسک ضروری خیال کیاگیا توا پنے قومی مزاج کے مطابق یہ بھی یکدم دس روپے سے تین سو روپے تک بیچا گیا۔اوریہودی معیشت کے اصول کو اپنایا گیا کہ ـ"جس چیز کی طلب بڑھ جائے اسکی رسد میں اضافہ کرنے کی بجائے قیمت میں اضافہ کردو"جب کچھ وقت گذرا تو مقامی صنعت کاروں نے کھل کر ماسک سازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کی ۔پیداوار بڑھ گئی تو کئی ملکوں کو برآمد بھی کیاگیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ تھوک میں تین روپے جبکہ پرچون میں آسانی سے دس روپے میں دستیاب ہے۔اور کئی غریب لوگوں کو روزگار بھی ملا۔اب ماسک بیچنے والے چوراہوں ،دفتروں، کچہریوں اور دیگر عوامی مقامات پر اکثر مل جاتے ہیں۔
 آج پھر وہی منظر دیکھا جو گذشتہ ایک سال سے دیکھ رہا ہوں کئی بوڑھے مرد اور بچوں ،عورتوں کے علاوہ نوجوان بھی مصروف مقامات اورسرکاری دفاتر کے اردگرد رنگارنگ کے ماسک فروخت کررہے ہیں۔مگر ایک منظردیکھ کردل کانپ جاتا ہے کہ اس شدید ترین گرمی میں جبکہ پارہ سال کے انتہائی گرم دنوں کوچھورہا ہے یہ لوگ سخت گرمی میں بغیر کسی دستی یابرقی پنکھے کے سڑک کنارے بیٹھ کریاگھوم پھر کرماسک بیچ رہے ہیں۔
احباب سے بس یہی گذارش ہے کہ ماسک کسی میڈیکل سٹور وغیرہ سے تین روپے میںخریدنے کی بجائے اگردس روپے میں انہی لوگوں سے خریدلیںتو کوئی حرج نہیں اگر آپ پورے ڈبے کی بجائے ہفتے بھر کیلئے ہی سہی ان سے خریداری کرلیںمعیار میں کوئی فرق نہیں ہے۔دوسری گذارش ہے کہ اگر کسی کے گھر میں کوئی فالتو میزکرسی وغیرہ پڑی ہوتواسے ان لوگوںکو عطیہ کردیں۔سارادن سٹرک پر دھوپ میں بیٹھ کرگود میں ماسک لینے کی بجائے یہ لوگ کرسی پر بیٹھ کرسامنے میز پر ماسک سجائے ہونگے توراحت محسوس کرینگے اور یقین کریں کہ یہ راحت آپ کو بھی محسوس ہوگی۔
اگر گھر میں کوئی میز کرسی نہیںتو بازار سے کوئی رعائتی قسم کی پلاسٹک وغیرہ کی میزکرسی خرید کرعطیہ کردیں۔مگر یاد رہے ان پر اپنانام نہیں لکھوانا۔ ہاں اگر رفاہ عامہ کاکوئی ادارہ ایسا کرنا چاہے توکوئی حرج نہیں۔رہیں ہمارے ملک کی NGOs تو انکا ایجنڈا ہی دیگر ہے۔ ایک اور واقعہ بھی آپ کو سناتا چلوں جس کا تعلق آج سے تقریبا پچاس سال قبل سے ہے۔ گوجرانوالہ میں ایک صاحب تھے ـ"داروغہ صاحب" جنہوں نے PIAشیور سے پولڑی فارم کی مرغیاں خرید کرکاروبار شروع کیا۔جب میں ہائی سکول کاطالب علم تھا تو شہر میں"ولائتی مرغ"کی واحد دکان گرجاکھی دروازے کے عین چوک میں تھی ۔
70کی دہائی میں یہ صنعت کچھ ترقی کرگئی مگر عمومی طورپر لوگ بکرے چھترے کا گوشت ہی کھاتے۔ اچانک پتہ نہیں کیاہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں کڑاہی گوشت کی دکانیں کھل گئیں۔لوگوں نے جیسے صدیوں کی بھوک مٹانے اور نئے ذائقے سے لطف اندوز ہونے کیلئے ان دکانوں پر اتنا گوشت کھانا شروع کردیا کہ گورنر پنجاب غلام مصطفے کھرکو لاہور اورکچھ دیگر بڑے شہروں میں اس پر پابندی عائد کرناپڑی ۔مگر یار لوگوں نے اب مٹن کی بجائے مرغ کا رخ کرلیااور"مرغ کڑاہی"سستی ہونے کی وجہ سے اسکے عشاق کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتاچلا گیا۔پھر بہت سے مغربی طرز اور چائینز کھانوں نے یلغار کی تو مرغ کی کھپت میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ مگر تاحال یہ لوگوں کی قوت خرید سے باہر نہیں ہوا تھا۔ 
آہستہ آہستہ جب حمزہ شہباز اس کاروبار میں شامل ہوا اور اس کی کمان سنبھالی توایک دن وہ بھی آیا جب یہ قوت خرید سے باہر ہوگیا۔ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سے ایک میٹنگ میں ملنا ہوا تو انہوں نے "راناضیاء " نامی کسی شخص کاذکر کرتے ہوئے بتایا کہ گوجرانوالہ میںمرغ کے گوشت کے نرخ صرف یہ ایک اکیلا شخص طے کرتا تھا اورقیمتیں طے کرنے کا معیارصرف ناجائز منافع خوری ہوتا۔ انہوں نے یہ بتایا کہ اب انہوں نے مرغ کے گوشت کی قیمتوںپر نظر رکھنے کیلئے ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں رانا صاحب کو بھی شامل کیاگیا ہے کہ انہوں نے تعاون کرنے کا وعدہ کرلیا ہے ۔جس روز میٹنگ تھی تب مرغ کا گوشت 280روپے کلو تھا اور رانا صاحب کے تعاون سے آج تین ماہ بعد مرغ کا گوشت 500 روپے فی کلو سے بھی زائد ہوچکا ہے۔مگر لوگ خریدنے سے باز نہیں آرہے۔ دالوں اور سبزیوں کوشائد اپنی خوراک کا حصہ ہی نہیں بناتے ۔مرغ کے گوشت کے بائیکاٹ کی ایک مہم بھی چل رہی ہے ۔آپ بھی اس میں شامل ہوکربائیکاٹ کریں اور دالوں سبزیوں وغیرہ کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔
آج کل بازار میں رنگا رنگ کی سبزیاں آئی ہوئیں ہیں اور کچھ نہیں تو انہیں آزما کرہی دیکھ لیں۔یہ زندہ رنگ ہیں اللہ کریم کے جو مردہ مرغیوں کے گوشت سے کہیں بہتر ہیں۔حالات ساز گار نہ ہوں تو انسان کو اپنا طرز زندگی بدل لینا چاہیئے۔اگر کچھ لوگ مرغ کا گوشت خریدنے کی اسطاعت رکھتے ہیں تو بھی دوسرں کی خاطرہی سہی کچھ وقت کیلئے بائیکاٹ ضرور کریں ۔ذرامصالحہ بھرے ٹینڈوں ،کریلوں ،دال کدو اور بھنڈی توری کا مزہ تولے کردیکھیں۔ایسی ڈشیں صرف میرے پیارے ملک میں ہی دستیاب ہیں۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن