قاتل کو مسیحا کہتا ہوں
مجھے تو ہمیشہ اس بات پر اعتراض بھی رہا ہے اور حیرت بھی کہ موجودہ ڈاکٹرز کو مسیحا کا درجہ کس نے دے دیا۔جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر تو مسیحا ہے توحیرت دو چند ہوجاتی ہے کہ آخر یہ ڈاکٹر کس سیارے سے زمین پر وقوع پذیر ہوا ہے؟ میری طرح اکثر خواتین اس تجربے سے گزری ہوں گی۔ماں بننے کی خوشی اور حساسیت خاص طور پر پہلی بار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا روٹین کا چیک اپ کروانے کیلئے کوشش کرتی ہے کہ کسی اچھے ڈاکٹر اور ہسپتال سے رجوع کیا جائے تاکہ اس کا بچہ صحت مند، توانا اور ہنستا کھیلتا اْس کی گود میں نظر آئے۔ماں بننے کا پہلا احساس ہی عورت کے اندر مامتا کی شدت کو پوری طرح سے بیدار کردیتا ہے۔اسی مامتا کے ہاتھوں بچے کی محبت میں مجبور ماں ان نام نہاد مسیحائوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ جہاں کوئی کسی دوسرے کی مجبوری دیکھتا ہے تو اْس کی مدد کرنی اور حوصلہ دینے کی بجائے اْس مجبوری سے فائدہ اْٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ رویہ تقریبا ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں پایا جاتا ہے لیکن کچھ شعبہ جات ایسے ہیں جہاں لگتا ہے قصائی چھریاں، چاقوتیز کئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور مجبوری کے مارے شکارسے اپنے ہاتھ رنگین کرتے رہتے ہیں اپنے اپنے مزاج اور اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔جیسے مجھے ہمیشہ یہ سوچ کر عجیب لگتا ہے کہ ایسے ذریعہ آمدن سے اپنے ا ور بچوںکے اخراجات پورے کرنے والے لوگوں کا ضمیر اْنہیں ملامت کیوں نہیں کرتا۔شاید خدا کی ودیعت کردہ نعمتوں میں سے ایک تحفہ ضمیر بھی ہے جسے ہر ایک کو ودیعت کیابھی نہیں جاتا۔اسی لئے ہماری آپ کی اور ایسے لوگوں کے مزاج میں سوچ میں بھی فرق ہوتا ہے۔اْنہیں شاید ضمیر نامی کسی چیز کی خبر ہی نہیں ہوتی اْ ن کا کام تو صرف اور صرف پیسہ حاصل کرنا ہے خواہ اْس کا ذریعہ کچھ بھی ہو۔ویسے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں ایسے ذریعہ آمدن بھی ناجائز نہیں ہیں کیا؟ ہسپتال جانے سے مجھے ہمیشہ ایک عجیب الجھن رہی ہے۔مجھے کبھی ہسپتالوں میں جانا پسند نہیں رہا خواہ کسی مریض کی عیادت کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔ہسپتالوں میں ایک گھٹن اور مایوسیت کا ساسماں ہوتا ہے۔طرح طرح کی ادویات کی ناگوار بو طبیعت کو مزید مکدرکردیتی ہے۔ لیکن اپنے بچے کی صحت سلامتی کے پیش نظر میرے شوہر نے لاہور کے ایک نامورہسپتال کا انتخاب کیا کیونکہ بچے کے حوالے سے کسی قسم کا رسک لینا نہیں چاہتے تھے۔اس نامور ہسپتال میں میرے جیسی سینکڑوں نہیں ہزاروں خواتین رجوع کرتی ہیں۔ہر ماہ لمبی لائنوں میں جسمانی تھکن سے چور یہ مائیں کئی کئی گھنٹے اپنی ڈاکٹر سے چیک اپ کیلئے انتظار کرتی ہیں اس حالت میں گھنٹوں کرسیوں پر بیٹھنا کتنا تکلیف دہ ہے یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر عورت اس تجربے سے خوب آگاہ ہے۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ انہی مسیحا کو بتایا جاسکے کہ اْسے کس مشکل سے گزرنا پڑرہا ہے۔اْسے کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ایک تو کتھارس ہوسکے اور دوسرے شفا تاکہ امتحان کی اس گھڑی کو خوش اسلوبی سے گزارا جاسکے۔لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ ہزاروں فیس ادا کرکے گھنٹوں انتظار کے بعد لیڈی ڈاکٹر صاحبہ سے ملنے والے تین سے چار منٹ اسی طرح دیئے جاتے ہیں جیسے آپ ہی پر ڈاکٹر صاحبہ اپناخاص احسان فرما رہی ہیں اور مفت میں شاید آپ کا علاج فرما رہی ہیں چہروں پر ایسی رعونیت، بے حسی اور بیزاریت چھائی ہوتی ہے کہ مریض صحت یاب ہونے کی بجائے خود بھی بیزار اور بیمار سا محسوس کرنے لگے۔اس نامور ہسپتال کی ڈاکٹر صاحبہ نے شروع دنوں میں لمبی چوڑی ٹیسٹوں کی لسٹ میرے ہاتھ میں تھما کرکہا کہ یہ سب کروا لیں اْس کے بعد اس کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ کو میری طرح ڈاکٹرز نے(خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں) نے ٹیسٹوں کو کروانے کیلئے خاص الخاص لیبارٹریز کی ہدایت ہی کی ہوگی۔یہ وہ لیبارٹریز ہوتی ہیں جن کو شہر کی سب سے مہنگی لیبارٹری کہا جاتا ہے۔ بہانہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ٹیسٹ کی رپورٹ سوفیصد درست ہوتی ہے جبکہ پس پشت معاملہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ آپ کسی اور اچھی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروا کرلے جائیں وہ آپ کے منہ پر ماردیئے جائیں گے کہ ناقابل قبول ہے۔خیر ٹیسٹ کروا لئے۔ الحمد للہ سب ٹیسٹ کلیئر آگئے۔مجھے اسی دوران اْلٹیوں کا شدید مسئلہ رہا ڈاکٹر سے کہا اس نے دوائی تجویز کی خیر سے کچھ فرق نہیں پڑا۔اسی طرح کے ایک دو اور مسائل اور ڈاکٹر صاحبہ کی جلد بازی نے بددل کیا تو میں نے اسی ہسپتال میں ڈاکٹر بدل لی۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا معاملہ ہوگیا۔نئی ڈاکٹر صاحبہ نے ایک بار پھر لمبی چوڑی ٹیسٹوں کی لسٹ میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں بتاتی رہ گئی میرے ساتھ یہ معمولی مسائل ہیں ان کے لئے دوا تو تجویز کردیجئے لیکن وہاں اصرار پہلے ٹیسٹ کروا کر آئیے اگلی بات اگلی بار سنیں گے۔ ٹیسٹ تو اللہ کا شکر پھر کلیئر تھے۔ لیکن اس بے حس رویہ نے میرے دل میںان مسیحائوں کیلئے ایسی کڑواہٹ اور کھٹاس بھر دی کہ دوبارہ ان کے پاس جانے کو دل ہی نہیں کیا۔دل چاہتا ہے کہ ہر عورت کو بتائوں کہ خدا کیلئے نامور ہسپتالوں کی ان نامور ڈاکٹر وں کے پاس نہ جانا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔سوائے تکلیف کے مزید بڑھ جانے کے۔ایک طرف پہلے کی جسمانی تکلیف اور اب ذہنی تکلیف بھی خرید لوئو گی۔آپ میں سے ہر ایک کے ان مسیحائوں سے جڑے تجربات مختلف ہوسکتے ہیں مگر کہانی سب کی ایک جیسی ہوگی۔