وفاق یا وزیراعظم کا صوبے کو قانون سازی کیلئے ہدایت کرنا غیر قانونی: ہائیکورٹ
لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائیکورٹ نے فوری انصاف کی فراہمی کیلئے جاری ضابطہ دیوانی ترمیمی آرڈیننس کیخلاف تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ جسٹس شاہد کریم نے ضابطہ دیوانی میں ترمیم کا آرڈیننس غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا۔ 65 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کو عدالتی نظیر قرار دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کو ضابطہ دیوانی میں ترمیمی آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، ترمیمی آرڈیننس نے سائلین کے حقوق کا گلا گھونٹ دیا، ترمیم کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے بھی رائے نہیں لی گئی، وفاق یا وزیراعظم کا صوبے کو قانون سازی کیلئے ہدایت کرنا نہ صرف غیر قانونی بلکہ اختیار کا آمرانہ استعمال بھی ہے، وزیراعظم کی ہدایات کو بلا عذر تسلیم کرنا پنجاب کی غلامی کو ظاہر کرتا ہے جو کہ صوبوں کی خودمختاری کے تصور کے خلاف ہے۔ ضابطہ دیوانی ترمیمی آرڈیننس نے قانون کے استحکام کو بڑے خطرے سے دوچار کیا، وسیع پیمانے پر ترامیم نے پورے نظام کو ابتر صورتحال میں ڈال دیا، متعدد مواقع دینے کے باوجود ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ترمیمی آرڈیننس کی سمری کی دستاویزات کو ہم آہنگ نہ کر سکے، ترمیمی آرڈیننس ایک غیر مضبوط طریقے سے تشکیل دیا گیا، آرڈیننس لانے کیلئے ایک ہفتے میں تمام کارروائی مکمل کی گئی، جبکہ محکمہ قانون و انصاف اور پارلیمانی امور نے وزیر اعظم کی ہدایت پر عمل کیا اور ڈاکخانے کا کردار ادا کیا۔ گورنر صرف اسمبلی کے سیشن کی عدم دستیابی یا انتہائی ناگزیر حالات میں آرڈیننس جاری کر سکتا ہے، رولز آف بزنس کے تحت قانون سازی کیلئے چیف سیکرٹری کا کردار بھی اہم ہوتا ہے، عدالت میں کوئی ایسی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں جس میں ثابت ہو کہ چیف سیکرٹری نے رولز آف بزنس کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوں۔