• news
  • image

عید ’’کانٹرو ورسی‘‘

مولانا کوثر نیازی رمضان کی فضیلت، روزے کی اہمیت، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن پر ا ور اسلام کی سربلندی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر آبدیدہ ہو جاتے۔ شام کو انکے اعزاز میں افطاری کا اہتمام ہوتا۔ کھجور کا دانہ اٹھاتے ہوئے خصوصی دعا فرماتے اور روزہ کھولنے سے پہلے اس بات کا پوری طرح اطمینان کر لیتے کہ خورشید کی کشتی ٹوٹ کر پوری طرح غرقاب نیل ہو چکی ہے۔ رات کو لالہ موسیٰ سے اپنے خصوصی سیلون میں راولپنڈی تشریف لے جاتے۔ یہ ہر روز کا معمول تھا۔ 
خیر یہ تو سُخن گسترانہ بات تھی جو ہم نے زیرلب بیان کر دی ہے۔ اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ اگر ہم چودہ سو سال کی تاریخ دیکھیں تو اکثر دو عیدیں ہی ہوتی تھیں۔ اب تو سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ انسانی آنکھ تو صرف محدود منظر ہی دیکھ سکتی ہے جبکہ مشینی آنکھ چاند تو کیا اس سے آگے تک دیکھنے کی قدرت رکھتی ہے۔ بالفرض ایسا ہے تو پھر کس کی شہادت زیادہ معتبر ہو گی؟ خلفائے راشدین کے زمانے میں سلطنت مصر و شام تک پھیل چکی تھی۔ کیا یہ ممکن تھا کہ مصر میں رویت کی خبر مدینہ تک پہنچ پاتی؟ ہر علاقہ اپنی اپنی صوابدید کیمطابق عید مناتا۔ کبھی اس بات پر تنازعہ کھڑا نہ ہوا کہ اہل کوفہ نے مدینے کی تقلید کیوں نہ کی۔ درحقیقت اس وقت ہم ایک عجیب قسم کے ذہنی خلفشار کا شکار ہیں۔ جب ہمیں ’’سوٹ‘‘ کرتا ہے تو ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں۔ بصورت دیگر منحرف ہو جاتے ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی میں اگر چند لوگ گواہی دیتے ہیں تو اسکی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ باوجود کوشش کے وہ چاند نہیں دیکھ سکے ان کی بات نہ ماننے کا کیا جواز ہو گا؟ اس بات کا تعین کیسے کیا جائے گا کہ شہادت دینے والے صادق اور امین ہیں۔ 
زیادہ Confusion فواد چودھری نے پیدا کی۔ حکومت کی تشکیل دی ہوئی رویت ہلال کمیٹی کی موجودگی میں کسی وزیر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ قبل از وقت ’’گوہر افشانی‘‘ کرے۔ گو یہ وزارت چھوڑ چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے اپنے آپ کو ہنوز سائنس دان سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات ایمانداری سے کی ہوئی بات بھی حکومت کے لیے پریشانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ 
ویسے بھی جمعرات کی عید کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ملک میں دو عیدیں ہوتی رہی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس میں حکومت کا ہاتھ نہیں ہو گا۔ عید کسی دن بھی ہو حکومتیں اپنی کارکردگی پر بنتی اور بگڑتی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کی نظر آسمان پر نہیں بلکہ زمین پر ہونی چاہئے۔ لوگ کس قسم کی ز ندگی گزار رہے ہیں ، ان کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کیسے ایک عام آدمی کی پہنچ تک لانی ہیں۔ 
ہر شخص کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے ہیں ، جس دن یہ سب کچھ ہو گیا اس د ن قوم حقیقی عید منائے گی۔ جمعرات ، جمعہ سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔(ختم شد)

epaper

ای پیپر-دی نیشن