• news
  • image

پارٹی فنڈ کے نام پر کرپشن

سیاسی جماعت ہو یا مذہبی یا کوئی اور تنظیم ہو اسے چلانے کیلئے فنڈ کی ضرورت پڑتی ہے-پارٹی فنڈ کے سلسلے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمارے لیے شاندار روایت چھوڑی ہے-متحدہ ہندوستان میں کسی بھی کونے سے کوئی شخص اگر آل انڈیا مسلم لیگ کیلئے چار آنے کا فنڈ بھی بھیجتا تو قائداعظم اس کا مکمل ریکارڈ رکھتے اسکی رسید بناتے اور اس پر خود دستخط کر کے فنڈ دینے والے کو بھیجتے-قائد اعظم کا سٹاف کہتا کہ وہ رسید پر دستخط کر دیا کرینگے مگر قائد اعظم فرماتے کہ پارٹی فنڈ قوم کی امانت ہے جو لوگ پورے اعتماد کے ساتھ فنڈ ارسال کرتے ہیں ان کو رسید بھیجنا میری اخلاقی ذمہ داری ہے-قائد اعظم کے سیکرٹری کے ایچ خورشید کیمطابق ایک بار قائد اعظم ریلی کو خطاب کر کے رات ایک بجے اپنے گھر پر پہنچے - محترمہ فاطمہ جناح نے ان سے کہا کہ عوام نے جو پارٹی فنڈ دیا ہے اسکی گنتی ہم صبح کر لیں گے مگر قائد اعظم نے فرمایا کہ یہ فنڈ قوم کی امانت ہے میری بہن آپ اور کے ایچ خورشید دونوں اسکی اسی وقت گنتی کرو اور اسے رجسٹر میں درج کرو- قائداعظم پارٹی فنڈ کا مکمل حساب کتاب رکھتے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی جنرل کونسل میں پارٹی فنڈ کے سلسلے میں اراکین کو اعتماد میں بھی لیتے تھے اس صاف اور شفاف روایت نے عوام کے دلوں میں انکے بارے میں مکمل اعتماد پیدا کیا - عوام کا یہ اعتماد ہی تھا کہ قائد اعظم مسلمانوں کیلئے آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے- افسوس قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی اس شاندار روایت کو قائم نہ رکھا جا سکا اور پارٹی فنڈ کرپشن کا بڑا ذریعہ بن گیا - پاکستان کی سیاسی تاریخ پارٹی فنڈ کے نام پر کرپشن کی ہوشربا داستانوں سے بھری پڑی ہے جس پر ابھی تک کوئی تحقیقی کام بھی نہیں کیا جا سکا-
 اگر کوئی محقق پارٹی فنڈ کے سلسلے میں تحقیقات کرے تو کرپشن کے ایسے حقائق سامنے آئیں کہ پاکستان کے عوام دنگ رہ جائیں-ایک قابل اعتماد عینی شاہد نے بتایا کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم ایک شہر میں دورے پر گئے انہوں نے اس شہر کے تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کی اور ان سے پارٹی فنڈ طلب کیا- تاجروں اور صنعت کاروں نے جو فنڈ دیا اسے بوریوں میں بھرا گیا اور جہاز پر اپنے ساتھ واپس لایا گیا - اس فنڈ کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا گیا- پاکستان کی تاریخ میں ایسے وزیراعظم بھی گزرے ہیں جو پارٹی فنڈ کے بغیر کسی سے ملاقات بھی نہیں کرتے تھے-پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں پارٹی فنڈ کے نام پر پارٹی ٹکٹ بھی فروخت کرتی ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کیلئے قربانیاں دینے والے کارکن اپنے استحقاق کے باوجود پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں- سیاسی جماعت کے سیکرٹری جنرل مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور صوبائی صدر عہدے کے لحاظ سے پارٹی ٹکٹ کے حقدار ہوتے ہیں انکے ٹکٹ بھی سرمایہ دار امیدواروں کو فروخت کئے جاتے رہے-جب سیاستدان پارٹی فنڈ کے نام پر تاجروں صنعتکاروں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے اربوں روپے کے فنڈ جمع کرتے ہیں تو ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنا سکیں اور عوام کے حقوق کیلئے قانون سازی کر سکیں- تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آکر ہمیشہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا ہی تحفظ کیا - جمہوری اصولوں کے مطابق پارٹی امیدوار کا چناؤ متعلقہ انتخابی حلقہ کے پارٹی کارکنوں کا ہوتا ہے مگر پارٹی لیڈر یہ اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں تاکہ پارٹی فنڈ اکٹھا کر سکیں- پاکستان میں انکم ٹیکس کے اعداد و شمار اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں پر خرچ کیا جا رہا ہے- کوئی سیاسی جماعت ابھی تک سرمایہ داروں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لا سکی- اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پارٹی فنڈ کے نام سے سرمایہ داروں سے رقم اکٹھی کر لی جاتی ہے تو پھر ان کو ٹیکس نیٹ میں کیسے لایا جا سکتا ہے - پارٹی فنڈ میں خوردبرد اور منی لانڈرنگ کے سلسلے میں پاکستان کی چار بڑی جماعتوں کے مقدمات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے زیر سماعت ہیں - حکمران سیاسی جماعت کیخلاف پارٹی فنڈ کے سلسلے میں کیس 2014 سے زیر سماعت ہے اس کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا جا سکا - اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پارٹی فنڈ کے سلسلے میں صاف اور شفاف تحقیقات کرنے میں ناکام رہا ہے- اراکین پارلیمنٹ ہر سال اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کراتے ہیں اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی پارٹی فنڈ کی سٹیٹمنٹ جمع کراتی ہیں مگر آج تک الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نہ ہی کسی سیاسی جماعت اور نہ ہی کسی پارلیمنٹ کے رکن کیخلاف اثاثوں اور پارٹی فنڈ کے سلسلے میں کوئی تحقیقات کی ہیں ان کو جو ریکارڈ دیا جاتا ہے اس کو تسلیم کرلیا جاتا ہے اور اس پر مزید تحقیق کی تکلیف ہی گوارا نہیں کی جاتی- الیکشن کمیشن کو پولٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت اختیارات بھی حاصل ہیں مگر بوجوہ ان اختیارات کو استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے-
ایک قابل اعتماد عینی شاہد نے بتایا کہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کو پاک فوج میں سامان کی سپلائی کیلئے آرڈر لینا تھا جو فوجی افسر اس شعبے کا انچارج تھا اس نے کوالٹی پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اس کو رشوت آفر کی گئی جس کو اس نے قبول نہ کیا-تجارتی سیاسی شخصیت نے فوجی افسر کو اپنے گھر دعوت پر بلایا اور اسکے سامنے الماریوں کے دروازے کھول دیے جن کے اندر امریکی ڈالروں اور پاکستانی روپوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے- اس سیاستدان نے پیشکش کی کہ جتنے پیسے لینا چاہتے ہو لے لو اور ہمیں فوج میں سامان کی سپلائی کا آرڈر دے دو-اس افسر نے لالچ میں آنے سے انکار کر دیا-اس ایماندار افسر کو راستے سے ہٹانے کیلئے اسے جال میں پھنسایا گیا اور یہ کہا گیا کہ وہ جدہ میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے انہیں آپ جیسے ایماندار دار جنرل منیجر کی ضرورت ہے اسے لاکھوں ڈالر سالانہ کی تنخواہ اور مراعات کی پیشکش کی گئی- فوجی افسر جھانسے میں آگیا اور فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی-سیاستدان نے اسے جاب دینے سے انکار کر دیا اور اس طرح اسے اپنے راستے سے ہٹا دیا- جب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیڈر پارٹی فنڈ کے نام پر سرمایہ جمع کرتے ہیں تو یہ برائی نیچے تک پھیل جاتی ہے اور پارٹی تنظیموں کے عہدیدار بھی اس کرپٹ کلچر میں مبتلا ہو جاتے ہیں-پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے پارٹی کے غریب کارکنوں کیلئے ورکرز ویلفیئر فنڈ قائم نہیں کیا جس سے مستحق کارکنوں کی مالی اعانت کی جا سکے-سیاسی و مذہبی جماعتوں میں پارٹی فنڈ کے نام پر کرپشن کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پر انتخابات کرائے جائیں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے کوٹہ مقرر کیا جائے تاکہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو جو انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں ان کو سیاست سے باہر نکالا جا سکے اور پاکستانی سیاست کو کو تجارت نہیں بلکہ عوامی خدمت بنایا جا سکے- 

epaper

ای پیپر-دی نیشن