• news
  • image

بھارت جوہری مواد کے تحفظ میں ناکام! 

-16 جون1998ء کو بھارتی ریاست بیہار سے مغربی بنگال میں داخل ہوتے ہوئے کانگریس جماعت سے منسلک اہم وفاقی سیاستدان مشیور سنگھ دیو کو مغربی بنگال کی پولیس نے گاڑی کی تلاشی کے دوران ایک بوری میں بندھے ہوئے مشکوک پیکٹ کی بنا پر گرفتار کر لیا۔ بوری سے ملنے والے مواد کی جانچ کی گئی تو وہ یورینیم نکلا جس کی مقدار 100 کلوگرام بتائی گئی۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے کانگرس جماعت کے رکن سے 100 کلوگرام یورینیم کا برآمد ہونا بہت بڑی خبر تھی۔ جسے تفتیش کیلئے کلکتہ منتقل کر دیا گیا ، جہاں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارت سے باہر یورینیم سمگل کرنے والے اس گروہ کا حصہ ہے جسکے کچھ اراکین 1994ء میں شمال مشرقی ریاست میگھالیہ میں موجود یورینیم کی کان سے یورینیم کی بہت بڑی مقدار سمندر کے راستے مالدیب سمگل کرنے کی کوشش میں پکڑے گئے تھے لیکن مشیور سنگھ دیو سے تحقیق کرنیوالے سکیورٹی ادارے کا یہ انکشاف حیران کن تھا کہ بھارتی سیاستدان کا گروہ بھارت سے پاکستان کیلئے یورینیم سمگل کرتا ہے۔ عالمی میڈیا نے پاکستان کیخلاف اس لغو الزام کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پاکستان 28 مئی 1998ء کو پانچ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کرنے پر امریکہ و مغربی دنیا کی وجہ سے لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی دبائو میں تھا۔ بھارت میں سمگلنگ کیلئے پکڑی جانیوالی یورینیم پر بجائے بھارت سے جواب طلبی کرنے اور بھارت میں تابکاری مواد کے تحفظ میں ناکامی پر بھارت کی گرفت کرنے کی بجائے اُلٹا مغربی میڈیا کو پاکستان کیخلاف پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا گیا لیکن حیران کن طور پر پاکستان میں حکومت اور وزارت خارجہ نے اس اتنے سنگین الزام پر خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ 
2000 میں ممبئی پولیس نے گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ایک بند سکول سے 30 کلوگرام افزودہ یورینیم برآمد کر لی اور بتایا گیا کہ کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی کیونکہ وہاں موجود افراد پولیس کا چھاپہ پڑتے ہی دوسری طرف سے دیوار پھاند کر فرار ہو گئے۔ 2003 ء میں بھارت کے ساتھ ملحقہ سرحدی گائوں سے بنگلہ دیش نے مقامی انتہا پسندوںسے 225 گرام افزودہ یورینیم برآمد کی۔ گرفتار افراد تعلق کا تعلق بنگلہ دیشی جماعت المجاہدین سے بتایا گیا۔ انہوں نے یورینیم بھارت میں ایک سرکاری افسر جو یورینیم کی کان میں نگران تھا سے خریدی تھی۔ بھارت سرکار نے ابتدا میں مؤقف اختیار کیا کہ بنگلہ دیش میں پکڑی جانے والی یورینیم بھارت ساختہ نہیں ہے۔ تاہم بعد میں تسلیم کر لیا گیا کہ یورینیم فروخت کرنے والا افسر JADUGODA URANIUM MINING COMPLEX میں تعینات تھا۔ 2008 ء میں INDIA,S ATOMIC MINERALS DIVISION کے ایک اعلیٰ افسر کا بیٹا سرحد پر بنگلہ دیش میں داخلے کے وقت بھاری مقدار میں یورینیم کے ساتھ پکڑا گیا۔ اسی سال نیپال یورینیم سمگل کرتے ہوئے ایک گروہ سرحد پر پکڑا گیا۔ 2009 ء میں مدراس نیوکلیئر ری ایکٹر میں کام کرنے والے ایک ملازم نے اپنے درجنوں ملازموں کو زہر دے کر قتل کر دیا۔ تحقیقات پر انکشاف ہوا کہ یہاں سے افزودہ یورینیم چوری کیا جا رہا تھا۔ یہ سلسلہ کب سے جاری تھا ۔ یہ بات چھپائی گئی اور تحقیقاتی رپورٹ کو بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ تاہم 2013ء میں ناگا علیحدگی پسند گوریلوں کی طرف سے نصب کیے گئے CRUDE BOMB کو پھٹنے سے پہلے ناکارہ بناتے ہوئے اس انکشاف نے بھارت سرکار و بھارتی سکیورٹی اداروں کے ہوش اُڑا دئیے کہ بم میں یورینیم کی مقدار شامل تھی جس کے پھٹنے پر بے تحاشا جانی و مالی نقصان ہوتا۔ 2015,2014 ء میں امریکہ میں عالمی سطح پر نیوکلیئر و ایٹمی ریسرچ پر کام کرنیوالے ممالک یا اس ٹیکنالوجی کو توانائی کی ضروریات کے علاوہ اسلحہ کی تیاری میں استعمال کرنیوالے ملکوں پر نظر رکھنے تھنک ٹینک امریکی حکومت کو بھارت کی جوہری مواد کے تحفظ میں ناکامی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال میں غیر ذمہ دارانہ رویے پر مفصل رپورٹ پیش کر چکا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ امریکہ اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے والے بھارت کو ناراض نہ کرنے کی حکمت عملی کی وجہ سے بھارت میں جب کبھی یورینیم کی فروخت یا بھارت کے کسی ایٹمی ری ایکٹر پر حادثے کی خبر آتی ہے تو اس پر آنکھیں اور کان بند کر لیتا ہے جبکہ بھارت کے اندر اس طرح کے واقعات صرف بھارت کے عوام ہی نہیں عالمی سطح پر بھی سلامتی کا مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ 
ابھی چند روز قبل بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ سے یورینیم سمگل کرنیوالے گروہ کی گرفتاری اور اس سے ایک ماہ پہلے مہاراشٹر میں یورینیم فروخت کرنے کی کوشش میں 2 افراد کی گرفتاری نے بھارت میں ایٹمی ٹیکنالوجی و جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں کام آنے والے تابکاری مواد کی حفاظت سے متعلق شدید قسم کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ بھارت کے ساتھ جڑے امریکہ و برطانیہ کے سیاسی اور معاشی مفادات کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بھارت کو جنوبی ایشیاء میں بسنے والے انسانوں کی زندگی سے کھیلنے کی اجازت دے دی جائے۔ بھارت 2005 ء سے 2020 ء تک 100 سے زیادہ ملکوں میں جعلی میڈیا ہائوسز بنا کر انکے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان کو بھارت کی طرف سے براستہ افغانستان پاکستان پر مسلط کی گئی دہشت گردی کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ امریکہ و برطانیہ پاکستان کے خلاف ہر طرح کی جارحیت ، سازشوں اور ہتھکنڈوں کے حمایتی ہی نہیں بعض مواقع پر مددگار بھی رہے ہیں لیکن بھارت میں تابکاری و جوہری مواد کی چوری جیسے واقعات پر امریکی ، برطانیہ و دیگر ترقی یافتہ مغربی عوام کی خاموشی ایک مجرمانہ فعل ہے۔ بھارت کے اپنے عوام کی زندگی تابکاری پھیلانے والے یورینیم کی گلی محلوں میں فروخت کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اس کیخلاف اپنا ردعمل دے چکی ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ اس کیخلاف عالمی سطح پر ایک بھرپور مہم چلائی جانی چاہیے لیکن اس سے قبل ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارت میں یورینیم کی فروخت کے بڑھتے ہوئے واقعات کیخلاف قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد منظور کرے۔ اسکے بعد اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ بھارت پاکستان پر الزام تراشی کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ کل کلاں بھارت سے خریدا گیا افزودہ یورینیم کسی جگہ دہشت گردی میں استعمال ہو گیا یا بھارت کے اندر ہی اس حوالے سے ’’فالس فلیگ‘‘ کارروائی ڈالی گئی تو بھارت اسکا الزام پاکستان پر لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کریگا۔پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ صرف سیاست پر لاحاصل بحث میں سے کچھ وقت بھارت کی جوہری مواد کے تحفظ میں ناکامی کو دنیا کے سامنے اُجاگر کرنے کیلئے بھی وقف کرے۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن