تابناک پاکستان کیلئے جدّوجہد
پاکستان کا مستقبل تابناک بنتے دیکھنا کس کی خواہش نہیں؟ تاہم خواہش کو عمل کا روپ عطا کرنے والے کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ملک جتنی مشکلات عبور کر کے اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانی کے بعد حاصل کیا گیا تھا‘ ضروری تھا کہ اس کا مستقبل بڑا روشن اور تابناک ہوتا۔ اپنے قیام کے پہلے روز سے اغیار کی سازشوں کے شکار اس ملک کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنا پڑی۔ آج بھی اسے چہار اطراف سے دشمنوں اور بدخواہوں کی یلغار کا سامنا ہے۔ اس صورتحال پر پاکستانی قوم کی فکر مندی بجا ہے۔ نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ کا تھنک ٹینک ’’ایوان قائداعظم فورم‘‘ پاکستان کو براہ راست متاثر کرنیوالے معاملات و مسائل پر غور و خوض کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اہلِ علم و دانش کو قومی اہمیت کے معاملات پر اظہار خیال کی دعوت دینا اور انکے علم اور تجربے کی روشنی میں مسائل کا قابل عمل حل تلاش کرنا ہے۔ اس کے تحت گزشتہ نوں ابلاغیات کے نامور ماہر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری کو دعوت دی گئی کہ وہ پاکستان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے ضمن میں ایک روڈ میپ پر گفتگو کریں۔ یہ نشست ایوان قائداعظم کے محمود علی ہال میں منعقد ہوئی جس کی صدارت نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف نے کی۔ اس موقع پر روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی‘ روزنامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹر پروفیسر عطاء الرحمن‘ روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی‘ نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کی رکن بیگم مہناز رفیع‘ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر جنرل عابد شیروانی‘ بیگم صفیہ اسحاق‘ سلمان عابد‘ محمد ہمایوں ‘ ڈاکٹر سلیم رائے اور دیگر خواتین و حضرات موجود تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری کا کہنا تھا کہ اللہ رب العزت نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو زبردست استعداد اور قوت عطا فرمائی ہے۔ پاکستان کو اسکے قیام کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان نعمتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جائے۔ اس سلسلہ میں ایک علمی تحریک برپا کرنا ہو گی جس کا مرکز ایوان قائداعظم کو بنایا جائے۔ پاکستانی قوم کے تمام طبقات کو منزل مقصود کی طرف گامزن کرنے کیلئے متحرک کیا جانا چاہیے جن پر علم و عمل کی کمی کے باعث فی الحال ایک جمود کی سی کیفیت طاری ہے۔ حالیہ دنوں میں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے دوران انسانی حقوق کی علم بردار عالمی طاقتوں کی اصلیت اور انکے مْردہ ضمیر جس طرح بے نقاب ہوئے ہیں‘ انکی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ سہمے ہوئے معصوم فلسطینی بچوں کی بنائی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز نے تباہ شدہ عمارات کے ملبے سے نکل کر سلامتی کونسل سے یورپی پارلیمنٹ اور آئرلینڈ سے مشرقی وسطیٰ کے محلّات تک محض چار دنوں میں سوچ اور رویوں میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دی۔ یوں بھی الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل کی عمارت کی تباہی کے بعد ابلاغ کا یہی ایک ذریعہ باقی رہ گیا تھا۔ اس تناظر میں مجھے خیال آیا کہ نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایک تحریک کا آغاز کیا جائے کیوں کہ یہ دونوں مسائل بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے دل کے انتہائی قریب تھے۔ میرے نزدیک ایسی کسی بھی تحریک کیلئے نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ ایک مثالی ادارہ ہے کیوں کہ یہ پہلے ہی قوم ساز سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس نے ہماری نسلِ نو کو قیام پاکستان کی غایت وجود یعنی دو قومی نظریے اور قیام پاکستان کے حقیقی اسباب و مقاصد سے روشناس کرانے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔
اس ادارے کے تمام اکابرین بالخصوص محترم مجید نظامی‘ محترم غلام حیدر وائیں اور محترم ڈاکٹر رفیق احمد کی قومی خدمات ہماری تاریخ کے شاندار ابواب ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے ہمیں پاکستان میں مختلف مقامات پر منتشر استعداد اور قوت (Potential) کی نشاندہی کرنا ہو گی۔ پھر اسے اس قومی نظریاتی ادارے کے پرچم تلے مجتمع کرنا ہو گا۔ اسکے بعد ایک علاقائی و بین الاقوامی دانشورانہ نیٹ ورک تشکیل دینا ہو گا اور اسکی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پاکستان اور اسکے دوست ممالک کے بنیادی و عمومی مفادات کے تحفظ کا بیانیہ ترتیب دینا ہو گا نیز قومی ابلاغی دھارے میں نئے ‘ مثبت اور تعمیری خیالات و نظریات کو سمو کر اسکی اثر پذیری میں زبردست اضافہ کرنا ہو گا۔
پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری نے واضح کیا کہ اگرچہ ہمیں خراب معیشت اور بیڈ گورننس جیسے مہیب مسائل کا سامنا ہے مگر ہمیں ہر حال میں قوم سازی کا فریضہ سر انجام دینا ہو گا۔ گوناگوں مشکلات‘ پیچیدگیوں اور الجھنوں میں سے ہی ہمیں اپنے لیے آسانیاں تلاش کرنا ہوں گی۔ تزکیہ ٔ نفس کے ذریعے اگر ہم زندگیکے بارے میں اپنے رویّے میں مطلوبہ تبدیلی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے لیے راستے کھولتا چلا جائے گا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر ایک دس سالہ معصوم فلسطینی لڑکی کی تباہ حال عمارت کے ملبے کے پس منظر میں بنائی گئی ویڈیو نے دنیا کے ایوانوں میں ایک آگ سی لگا دی تو آخر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں نہتے کشمیری عوام سے انسانیت سوز سلوک کی تصاویر اور ویڈیوز ایسا ردّعمل کیوں پیدا نہ کر سکیں؟ بھارتی حکام نے وادی ٔ کشمیر میں مسلمانوں کو معاشی لحاظ سے تباہ کرنے کیلئے سیب کے لگ بھگ دس ہزار درختوں کو کاٹ ڈالا مگر قدرتی ماحول کے تحفظ کے علم بردار کسی عالمی ادارے‘ تنظیم یا ماہر نے اس زیادتی کیخلاف آواز بلند نہ کی۔ ایسا کیوں ہوا؟ درحقیقت ہمارا قومی ابلاغی دھارا مختلف عوامل کی بناء پر آلودہ ہو چکا ہے۔ اس میں ہمارے بنیادی قومی مفادات کی پاسبانی کی سکت باقی نہیں رہی اس لیے میں بار بار اس بات پر اصرار کر رہا ہوں کہ ملک و قوم کا دکھ درد محسوس کرنے والے اہل علم و دانش کو مل بیٹھ کر وطن عزیز اور مسلمان ممالک کے مفادات کے تحفظ کیلئے مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔ اس حکمت عملی میں ابلاغ کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اغیار نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے اور جوں جوں وقت گزرے گا‘ ابلاغیات کو ہر قسم کے مہلک اسلحہ جات پر فوقیت حاصل ہوتی چلی جائیگی۔ غور کریں تو فی زمانہ ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار تو لڑی ہی ابلاغ کے ذریعے جا رہی ہے۔ پاکستان کو نہ صرف بھارت بلکہ دیگر اسلام دشمن قوتوں بالخصوص اسرائیل کی طرف سے اس جنگ کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو امت مسلمہ کو درپیش سنگین خطرات کا ادراک کریں اور متحد ہو کر ان کا سدّباب کریں۔ اس مقصد کیلئے دو تھنک ٹینکس بعنوان ابلاغی محاذ برائے امن و استحکام اور تابناک پاکستان مشن کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری نے عوام کے حقوق کیلئے قانون سازی کی اہمیت پر روشنی ڈالی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس معاملے سے نہ تو حکومت اور نہ ہی حزبِ اختلاف کو کوئی دلچسپی ہے۔ ممتاز دانشور‘ صحافی مجیب الرحمن شامی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مادر وطن کے حال کو بہتر اور مستقبل کو تابناک بنانا ہم سب کا مشن ہونا چاہیے۔ دین اسلام اور اس مملکت خداداد کے دشمن پاکستانی قوم کی صفوں میں انتشار اور اسکے دل و دماغ میں ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی پھیلانے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں۔ نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ چونکہ پہلے ہی مثبت فکری انقلاب کیلئے جدوجہد کر رہا ہے‘ اس لیے اس قومی ادارے کے تحت تابناک مشن کا آغاز نہ صرف انتہائی خوش آئند بلکہ نہایت بروقت بھی ہے۔
نشست میں موجود دیگر اہلِ فکر نے پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری کے خیالات کو سراہتے ہوئے انہیں ٹھوس شکل میں پیش کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ طے پایا کہ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری ایک کانسیپٹ پیپر تیار کریں گے جسے ایوان قائداعظم فورم کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائیگا اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے درکار انسانی اور مالی وسائل پر سوچ بچار کی جائے گی۔ میاں فاروق الطاف نے معزز مہمان اور حاضرین کی تشریف آوری پر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کا کہ ہزار میل کے سفر کا آغاز بھی پہلے قدم سے ہوتا ہے جو آج اٹھا لیا گیا ہے۔ وطن عزیز کے اہل علم و دانش سے اپیل ہے کہ وہ تابناک پاکستان مشن کے حوالے سے اپنی تجاویز اور رہنمائی سے بذریعہ ای میل trust@nazariapak.info نوازیں یا ایوان کارکنان تحریک پاکستان، -100 شاہراہ قائداعظم، لاہورکے پتے پر ارسال فرمائیں۔