• news
  • image

ملکی تاریخ میں پہلی بار  ایف بی آر نے  چار ہزار ارب سے زائد ریوینو اکٹھا کیا

احسان الحق،رحیم یار خان
ihsan.nw@gmail.com
  دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں سالانہ بجٹ کوایک یک سالہ مالیاتی پالیسی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس کو بنیاد بنا کر وہاں کی بزنس کمیونٹی اور مالیاتی ادارے کم از کم ایک سال کے لئے اپنی کاروباری حکمت عملی ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ اپنی درآمدات اور برآمدات بارے ایک جامع حکمت عملی کے ذریعے اپنی معیشت بہتر بنا رہے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مالی استحکام کم ہونے اور بیرونی قرضوں کے دباو ¿ کے باعث سالانہ بجٹ کے ساتھ ساتھ دوران سال بھی کئی مالیاتی پالیسیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں جس کے باعث بزنس کمیونٹی کو اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت بارے لمبی حکمت عملی ترتیب دینے میں بعض دفعہ بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان ملکوں کی برآمدات متاثر ہونے سے ملکی معیشت بھی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔پاکستان پر بیرونی قرضوں کے غیر معمولی دباؤ کے باوجود موجودہ حکومت کی بزنس فرینڈلی پالیسیوں کے باعث ریکارڈ برآمدات ہونے اور کپاس کے علاوہ دیگر تمام اہم فصلوںکی سالانہ پیداوار حیران کن طور پر ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہونے کے باعث شرح نمو3.94فیصدتک پہنچنے سے عوام اور بزنس کمیونٹی اب وزیر اعظم عمران خان سے آمدہ وفاقی بجٹ میں ٹیکسز کی شرح کم کرنے کے ساتھ ساتھ مزید ٹیکسز نہ لگانے اور مہنگائی کے بارے اقدامات کی توقع کر رہی ہے۔وزیر اعظم عمران خان اور انکی معاشی ٹیم کی بہترین پالیسیوں کے باعث ایف بی آر نے ملکی تاریخ میں پہلی بار چار ہزار ارب روپے سے زائد ریوینو اکٹھا کیا ہے۔ جبکہ آئندہ مالی سال کے لئے ریوینو اکٹھا کرنے کا ہدف مزید بڑھا دیا ہے تاکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میںخاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے۔کاروباری تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین سے اپیل کی ہے کہ پاکستان میں نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور پہلے سے لاگو ٹیکسز کی شرح بڑھانے کی بجائے ایف بی آر کی ساری توانائیاں اب اب ایسے افراد پر صرف ہونی چاہیئں جو سالانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کرنے کے باوجود ابھی تک ٹیکس نیٹ میں نہیں آ سکے۔ اورانکے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی۔ آئندہ سال کے لئے مختص کر دہ شرح نمو پانچ فیصد کے حصول کے لئے پاکستان میں کاروبار کرنے والے افراد اور اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا لیکن اس کے لئے ایف بی آر کو چاہیئے کہ وہ نئے ٹیکس دہندگان کے لئے کم از کم پانچ سال کے لئے ایک ’’سیلف اسسمنٹ اسکیم‘‘ کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دے تاکہ بزنس کمیونٹی میں ٹیکس نیٹ میں آنے کا رجحان بڑھ سکے۔
 پچھلے دو سالوں کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بہتر ہونے اور بہترمعاشی پالیسیوں کے باعث پاکستانی برآمدات میں  اضافہ ہوا ہے ۔ان برآمدات میں ریکارڈ اضافے کے لئے  وزارت خزانہ کو وفاقی بجٹ میں پانچ بڑی ملکی برآمدی صنعتوں ٹیکسٹائل،لیدر،سپورٹس،سرجیکل اور کارپٹ سیکٹرز کے لئے ’’زیرو فیصد‘‘ اسٹیٹس بحال کرنا ہو گا۔ ان صنعتوں کے ماہانہ کروڑوں روپے ’’ریفنڈز‘‘ کی ایف بی آر سے بروقت ادائیگی  کے نتیجے میںمارک اپ کی صورت میں بڑھنے والی لاگت کم ہونے سے ان صنعتوں کو بین الاقوامی منڈیوں سے زیادہ سے زیادہ برآمدی آرڈر مل سکیں۔بزنس کمیونٹی نے وزیر اعظم عمران خان سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ پاکستان میں مالیاتی اداروں میں شرح سود جو کہ اس وقت سات فیصد ہے یہ خطے کے ممالک میں سب سے بہت زیادہ ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھنے سے پاکستانی صنعتوں کو خاصے مالیاتی مسائل کا سامنا ہے اس لئے اس میں کم از کم دو فیصد کمی کی جائے جس سے ہماری برآمدات میں متوقع ریکارڈ اضافے سے ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافے سے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میںکافی آسانی ہو سکتی ہے۔اوور سیز پاکستانیوں نے اس بجٹ کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے انکے دور حکومت میں ریکارڈ ترسیلات زر کی گئی ہیں جس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود ان کے لئے کوئی خاطر خواہ ’’انسینٹوز‘‘ کا اعلان نہیں کیا گیا ۔اس لئے اس بجٹ میں اوور سیز پاکستانیوں کے پاکستان میں بنک اکاؤنٹس سے رقوم نکلوانے کے ساتھ ساتھ انکے مقامی اہل خانہ کو ان اکاؤنٹس میں رقوم جمع کروانے کی بھی اجازت دی جائے تاکہ دوسرے بنک اکاؤنٹس سے رقوم نکلواتے وقت انہیں ود ہولڈنگ ٹیکس ادا نہ کرنا پڑے جبکہ انہیں پاکستان میں مالیاتی اداروں سے لین دین اور جائیداد کی خرید و فروخت میں وہ تمام مراعات دی جائیں جو کہ یہاں ایک ’’فائلر‘‘ کو حاصل ہیں ۔
 تنخواہ دار طبقہ اور پنشنرز اس بجٹ میں وزیر اعظم عمران خان سے تنخواہوں اور پنشن میں خاطر خواہ اضافے کی توقع کر رہے ہیں تاکہ انہیں مالی آسودگی حاصل ہو۔ پاکستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے بعض شعبوں میں بڑے بڑے مافیاز کام کر رہے ہیں جو بھر پور مالی مفاد ات اٹھا نے کے باوجود ٹیکسز کی مد میں کوئی خاطر خواہ شیئر قومی خزانے میں جمع نہیں کرواتے ۔ شوگر سکینڈل نے جنم لیا تو اس کی انکوائری کے دوران شوگر مافیا نے تو یہاں تک کہہ  دیا کہ مارکیٹ سے چینی غائب کر کے ملک میں چینی کا بحران پیدا کر دیں گے ۔  وزیر اعظم عمران خان کے کہنے پر  اس مافیا کے خلاف بھر پور کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو ہدایت کی کہ نیا شوگر فیکٹریز کنٹرول آرڈیننس کا نفاذ  بھی ہوا تاکہ کسانوں سے گنا خرید نے والوں کواربوں روپے کی  بروقت ادائیگیوں کا پابند بنیا جائے ۔وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر 2020ء میں کسان دوست شوگر فیکٹریز کنٹرول آرڈیننس کا نفاذکیا گیا لیکن بعد میں بد قسمتی سے اس شوگر مافیا کی خفیہ حکمت عملی سے نہ صرف یہ آرڈیننس پنجاب اسمبلی سے قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکا بلکہ راتوں رات پنجاب اسمبلی سے اس مافیا نے ایک نیا شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ منظور کروا لیا گیا ہے۔ 
 پنجاب بھر کے کسانوں نے ایک بار پھر وزیر اعظم کا دروازہ کھٹکٹھایا اور انہیں تمام صورت حال سے آگاہ کیا ہے جس پر وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر پنجاب اسمبلی سے دوبارہ کسان دوست شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ پاس کروائیں تاکہ کسانوں کا استحصال نہ ہو سکے جس پر چند روز قبل پنجاب اسمبلی سے دوبارہ ایک کسان دوست ایکٹ پاس ہونے سے صوبہ بھر کے کسانوں میں خوشی کی لہر دیکھی جا رہی ہے جس پر رحیم یار خان سے کسانوں کے ایک وفد نے تین روز قبل اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے ان سے بھر پور اظہار تشکر کیا ہے ۔اس  ایکٹ  سے توقع کای جا رہی ہے کہ حکومت آئندہ کسانوں کے مفادات کا تحفظ  جاری رکھے گی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

epaper

ای پیپر-دی نیشن