• news
  • image

سانحہ گھوٹکی، ٹرین حادثات آخر کب تک؟

سید شعیب شاہ رم۔۔۔کراچی
shoaib.shahram@yahoo.com

سندھ میں آج کل آئے روز کوئی نہ کوئی خبر سننے کو ملتی ہے، ابھی سندھ حکومت کو وفاقی بجٹ میں کمی کا شکوہ ہی جاری تھا کہ اسی دوران بحریہ ٹاؤن پر قوم پرستوں نے حملہ کردیا جس میں سوسائٹی میں رہائشیوں کے قیمتی املاک، دفاتر، گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں نظر آتش کردی گئیں۔ اس حملہ سے کروڑوں روپے مالیت کا قیمتی سامان جل کر خاکستر ہوگیا ۔پولیس کی مبینہ طور پر کسی قسم کی کارروائی سے اجتناب پر ابھی بہت سے سوال جنم لے رہے  تھے کہ گھوٹکی کے علاقہ ڈہرکی کے قریب سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس میں ہولناک تصادم کے نتیجے میں 62افرادجاں بحق ہوگئے۔ جبکہ اس افسوسناک واقعہ میں100 سے زائد زخمی ہوگئے۔جاں بحق ہونے والے افراد میں 50کی میتیں ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ حادثہ میں ڈہرکی ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں کراچی سے لودھراں جانے والی بارات کے 11 لوگ بھی شامل تھے۔حادثے کے فوری بعد اپ اینڈ ڈاؤن ٹریک پر ٹرینوں کی آمدروفت مکمل طور پر معطل ہو کر رہ گئی جبکہ اندورن ملک چلنے والی ٹرینوں کو مختلف اسٹیشنوں پر روک دیا گیا ، شدید گرمی اور حبس کے باعث ان ٹرینوں میں موجود مسافر شدید اذیت سے دوچار رہے،اور جائے حادثہ پر قیامت کے منظر دکھائی دیتے رہے۔
 دلخراش حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس نے دلخراش واقعہ بیان کردیا ہے۔انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس اعجاز شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ریتی اسٹیشن سے نکلنے کے بعد ٹرین مقررہ اسپیڈ پر تھی کہ اچانک ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈی ریل ہوتی نظر آئیں، فاصلہ کم ہونے پر ٹرین ملت ایکسپریس کی ڈی ریل بوگیوں سے ٹکراگئی۔انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس نے بتایا کہ حادثے کے بعد دو گھنٹے تک انجن میں پھنسا رہا، مقامی افراد نے دو گھنٹے بعد مجھے ریسکیو کیا۔علاقے میں پاک فوج سمیت ریسکیو اداروں کی جانب فوری امدادی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا۔
 حادثے کے وقت ملت ایکسپریس میں 635 مسافر موجود تھے۔ جبکہ کراچی سے آنے والی سر سید ایکسپریس میں 504 افراد سوار تھے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی وزیرریلوے اعظم خان سواتی نے جائے حادثہ پر امدادی کارروائیاں تیزی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی اور سزا دینے کے احکامات جاری کردیے۔ پیر کو وزیرریلوے اعظم خان سواتی ٹرین حادثے کی جگہ پر پہنچے اور واقعے پراظہارافسوس کرتے ہوئے مرحومین کے لواحقین  کے ساتھ ملاقات کر کے ہلاک ہونے والوں کیلئے دعا کی۔اس موقع پر وزیر ریلوے کو ڈی ایس سکھر نے حادثے کے حوالے سے بریفنگ دی۔  وزیرریلوے نے ٹرین حادثے کی فوری طور پر ابتدائی رپورٹ پیش کرنے اورحادثہ میں ملوث ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی،سزادینے کا بھی حکم دیا۔بعد ازاں اعظم سواتی زخمیوں کی عیادت کے لئے اوباڑواسپتال پہنچے، اس موقع پر انھوں نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والے اداروں،مقامی افراد کاشکریہ ادا کیا۔وزیرریلوے نے کہا کہ ریلوے کے اندراورباہرایک بہت بڑامافیاہے جسے ختم کرنا ہے، مافیا ریلوے کو نچوڑ کرکھایا گیا ہے۔
حادثے کے بعدسے اب تک بیشتر زخمی مسافر رحیم یارخان کے اسپتال میں زیرعلاج ہیں، جن میں سے10زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ایدھی ذرائع کے مطابق  میتوں کو ایدھی ایمبولینسز کے ذریعے پنجاب کے مختلف شہروں، راول پنڈی، فیصل آباد، ملتان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، لودھراں روانہ کیا گیا ہے۔فوج اور رینجرز کے دستے بھی جائے حادثہ پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہے۔ فوری امداد کے لیے ملتان سے ہیلی کاپٹر بھیجے گئے۔ 
حادثے کے بعد ہر کوئی یہی سوال کر رہا ہے کہ حادثہ کس وجہ سے پیش آیا، اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔ جبکہ ماہرین کے مطابق ریلوے انتظامیہ کی غفلت اور خستہ ہال ٹریک کو بروقت تبدیل نہ کئے جانے کی وجہ سے سکھر ڈویژن میں حادثات بڑھ گئے۔گینگ مین اسٹاف اور ٹیکینکل وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تین ماہ کے دوران مسافر ٹرین کا دوسرا بڑا حادثہ ہوگیا۔ افسران کی جانب سے باقاعدگی سے ٹریک کی فش پلیٹ نہ ہونے کی وجہ سے حادثات بڑھتے جارہے ہیں۔ گریڈ 21 کے فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر نے بھی گزشتہ کراچی حادثہ کی انکوائری رپورٹ میں ڈی ایس سکھر کو اس ڈویژن کے لئے رسک قرار دیا۔سکھر ڈویژن میں مین لائن کا تمام ٹریک اپنی مدت مکمل کرچکا ہے، اسکے باوجود اسے تبدیل نہیں کیا جارہا ہے جبکہ ریلوے حکام نے اس ٹریک کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اسے سی پیک  کے ساتھ مشروط کیا ہوا ہے۔7مارچ کو بھی سکھر ڈویژن میں ٹریک کھل گیا تھا اور کراچی ایکسپریس کی پانچ بوگیاں پٹری سے نیچے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 2 مسافر جاں بحق ہوئے جبکہ متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پاکستان میں ٹرین حادثات میں اچانک اضافہ ہوا ہے، تاہم اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو اب تک کئی بڑئے حادثات ہوئے جن میں سیکڑوں افراد جان سے گئے اور ریلوے کو کروڑوں کا نقصان بھی ہو چکا۔پاکستان ریلوے کی تاریخ کئی بڑے حادثات سے بھری پڑی ہے، بھیانک ترین ٹرین حادثہ 4 جنوری 1990 کو ہوا، جب پنوں عاقل کے قریب سانگی میں ٹرین حادثے میں 307 افراد جان سے گئے۔1953 جھمپیر کے قریب ٹرین حادثے میں 200 افراد جاں بحق ہوگئے تھے ،اسی طرح 1954 میں جنگ شاہی کے قریب ٹرین حادثے میں 60 قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔حادثہ کی ابتدائی رپورٹ بھی سامنے آگئی۔ رپورٹ کے مطابق حادثہ اپ ٹریک کی پٹڑی کا ویلڈنگ جوائنٹ ٹوٹنے کے باعث پیش آیا، اپ ٹریک کی دائیں پٹڑی کا جوائنٹ ویلڈنگ سے جوڑا گیا تھا، جو ٹوٹا ہوا پایا گیا۔پٹری کا جوائنٹ ٹوٹنے کے باعث ملت ایکسپریس کی بارہ بوگیاں پٹری سے گر گئیں، ڈاؤن ٹریک پر سرسید ایکسپریس گری ہوئی کوچز سے ٹکرا گئیں، حادثے کے باعث سرسید ایکسپریس کا انجن اور چار کوچز پٹری سے گر گئیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کب ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے ریلوے میں کیا تبدیلی لاتی ہے؟
؛؛؛؛؛؛؛؛؛

epaper

ای پیپر-دی نیشن