عوام نے بجٹ سے خاص توقعات وابستہ کرلیں
محمد رضوان ملک۔۔۔اسلام آباد
ملک میں نئے بجٹ کی آمد آمد ہے نئے وزیر خزانہ کے حوصلہ افزاء بیانات اور معاشی اشارئیے بہتر ہونے کے حکومتی دعووں کے باعث عوام نے بھی نئے بجٹ سے خاصی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ملک میں منقسم اپوزیشن بھی اس انتظار میں ہے کہ نیا بجٹ پیش ہونے کے بعد اس کے اندر سے نئی خامیاں نکال کر حکومت کے خلاف کوئی نیا محاذ کھڑا کر سکے۔
اس میں شک نہیں کہ معاشی اشارئیے بہتر جارہے ہیں اور حکومت نے نئے بجٹ میں عوام اور سرکاری ملازمین کے لئے کئی ایک مراعات کا بھی اعلان کر رکھا ہے لیکن ایک چیز جوحکومتوں کی کامیابی اور عوام کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہ قومی مفاہمت ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اس راستے پر پیش رفت کی بجائے روز بروزپیچھے ہی ہٹتی جارہی ہے۔حکومت پی ڈی ایم میں تو دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اپنی روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث وہ اپوزیشن کی اس تقسیم سے کوئی خاص فائد ہ نہ اٹھا سکی۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کا خواب دیکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک معجزہ ہی ہوگا اور معجزوں کا زمانہ اب گزر چکا ہے۔حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ نہ تو مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو کوئی سزا دے سکی اور نہ لوٹی دولت میں سے ایک پھوٹی کوڑی واپس لا سکی ن میں سے ش نکالنے کی کوششیں بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنمائوں کو جیلوں میں رکھنے کے باوجود نہ تو کوئی جرم ثابت ہوسکا اور نہ لوٹی گئی عوامی رقم واپس قومی خزانے میں لائی جاسکی۔ حکومت ایک طرف صبح و شام اپوزیشن پر کرپشن اور ملکی خزانہ لوٹنے کے الزام لگاتی ہے اور دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ اپوزیشن انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حکومت کے کئے جانے والے تمام اقدامات میں اس کا ساتھ دے۔
مسلم لیگ ن تو اس حوالے سے حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کر چکی ہے اب حکومت نے پیپلز پارٹی کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ پانی کے مسئلے پر سندھ حکومت، وفاق اور پنجاب کے درمیان پہلے ہی تنازعات موجود تھے۔کہتے ہیں کہ ویسے تو سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا لیکن اور کچھ ہو نہ ہو ایک بات طے ہوگئی موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن کبھی بحال نہیں ہوں گے۔ اپوزیشن چاہے سو ٹکڑوں میں بھی بٹ جائے حکومت کسی ایک ٹکڑے یا دھڑے کو ساتھ لے کر چلنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔اس کا عملی مظاہر ہ حال میں وفاق اور سندھ کے درمیان چپقلش کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
پانچ جون کو وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو اس حوالے سے خط لکھ کر وفاق سے شکایت کی ہے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ فنڈز کے پروگراموں میں وفاق سندھ کو نظر انداز کر رہا ہے۔ خط میں کم ازکم چھ سیکٹرز کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس میں فنڈز کی غیر منصفانہ انداز میں تقسیم کی گئی ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت کے وزراء نے معاملے کو سلجھانے کی بجائے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ اسد عمر جیسے سنجیدہ شخص کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ سندھ کو فنڈز اس لئے نہیں دے سکتے کہ کرپشن کریں اور عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے سرے محل بنائیں ایک ایسے وقت میں جب کہ حکومت مفاہت کے حوالے سے پہلے ہی مشکلات کا شکا ر ہے اس طرح کے بیانات جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہی قراردئیے جاسکتے ہیں۔
اس حوالے سے سند ھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ حکومت نے سترہ نئی اسکیموں کی پیشکش کی لیکن وفاق کی ترجیحا ت کچھ اور ہیںانہوں نے ترقیاتی اسکیموں کے حوالے سے جو اعدادو شمار بتائے ہیں ا ن کو تنقید کر کے اور کرپشن کا الزام لگا کر ہوا میں اڑانے کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مرتضیٰ وہاب کاکہنا تھا کہ عمران خان صاحب نے دو نہیں ایک پاکستان کا وعدہ کیا تھا مگر اب ان کے مطالبات تبدیل ہوگئے ہیں۔عمران خان کی حکومت میں ایک پی ٹی آئی کا پاکستان اور دوسرا سندھ کا پاکستان ہے۔سندھ کی عوام نے بار بار تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو مسترد کیا ہے کیونکہ ان کی ترجیحات میں سندھ کے عوام نہیں'۔ان کا کہنا تھا کہ 'وفاقی حکومت نے اپنے کام سے ثابت کیا ہے کہ سندھ کے عوام سے ان کی کوئی دلچسپی نہیں۔ 'بجٹ تیاریوں کے حوالے سے دستاویزات جب ہماری پاس آئیں تو حکومت سندھ نے تمام شواہد اور دلائل کے ساتھ احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا تھا'۔
اس حوالے سے وزیر اعلی سندھ نے 5 جون کو وزیر اعظم کو خط لکھا اور پی ایس ڈی پی کے 6 سیکٹرز کی نشاندہی کی گئی کہ اس فنڈ کو غیر منصفانہ انداز میں مختص کیا گیا ہے۔ 'امید تھی کہ وزیر اعظم اس پر نظر ثانی کریں گے اور اسے آئین کے مطابق حل کریں گے تاہم یہ حکومت آئین پر یقین نہیں رکھتی'۔انہوں نے بتایا کہ 'وزیر اعلی سندھ کو معلوم ہوا کہ پی ایس ڈی پی منصفانہ انداز میں نہیں بنایا گیا ہے تو اس لیے انہوں نے وفاق کو یہ خط لکھنے کا فیصلہ کیا'۔
مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ 'اسد عمر نے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر کہا کہ سب غلط ہے، اور جب ان سے شواہد مانگے گئے تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس نہیں'۔ اگر آپ کے پاس حقائق نہیں تو اس طرح کا بیان نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ 'آپ پیپلز پارٹی کو نظر انداز نہیں کر رہے آپ سندھ کے عوام کو نظر انداز کر رہے ہیں'۔
سندھ حکومت نے وفاقی حکومت 17 نئی اسکیموں کی پیشکش کی تاہم ان کی ترجیح نہیں تو وہ اس کی بات نہیں کرتے 'ہائی وے بنانا وفاق کی ذمہ داری ہے، کراچی سے لاہور ہائی وے بننی تھی، لاہور سے سکھر تک وفاق نے اسے بنادیا مگر سکھر سے کراچی تک اسے نہیں بنایا گیا'۔سکھر سے حیدر آباد کو مکمل کرنے کے بجائے وفاق اسے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ پر لے گیا۔ 'پی ایس ڈی پی میں پنجاب کے لئے 25 اسکیمیں ہیں جن کے لیے 44 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، خیبر پختونخوا میں 38 ارب روپے کی 21 اسکیمیں، بلوچستان میں 24 ارب کی 17 اسکیمیں ہیںجبکہ ملک کو 70 فیصد ریونیو دینے والے صوبے سندھ میں 6 اسکیمیں ہیں۔اسی طرح پنجاب میں فنانس ڈویژن کی 18 اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں، خیبر پختونخوا میں 10، بلوچستان میں 32 اور سندھ میں 2 ہیں۔
ہم نے 7 ارب روپے انڈس ہائی وے کے لیے منتقل کردیے ہیں، 2021 آچکا ہے اب تک وفاق نے اس پر کام نہیں کیا ہے۔ 'وفاق پنجاب کی مدد کرے یہ اچھی بات ہے مگر صوبہ سندھ کا بھی حق ہے، کیا یہ وفاق کی متوازن تقسیم ہے۔وفاق کا کردار بڑے بھائی کا نہیں ایک باپ کا ہوتا ہے وفاق کو سندھ حکومت کے ان تحفظات کو تنقید اور کرپشن کے الزامات میں اڑانے کی بجائے ان کا مناسب تدارک کرنا ہوگا۔