بجٹ داخلی پیداوار، بیرونی سرمایہ کاری بڑھ گی: اقتصادی ماہرین
لاہور (فاخر ملک) تحریک انصاف کی حکومت نے 2021-22کے مالی سال کے بجٹ میں جو اقدامات اٹھائے ہیں ان سے ملکی مجموعی داخلی پیداوار بڑھے گی تاہم غیر جانبدار اقتصادی ماہرین کے مطابق گروتھ میں چار فیصدکا اضافہ ہوگا جبکہ 2022-21 کے بجٹ میں یہ ہدف 8.4 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ کے تحت رواں جون میں 1.4( ایک اعشاریہ چار ) روپے فی یونٹ اور جولائی میں 2.2روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ایک مثبت فیصلہ ہے۔ توقع ہے کہ حکومتی اقدامات کے بعد عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی پروگرام کے تحت رواں جون کے آخر تک 1.6 ارب ڈالر مل جائیں گے جس کے نتیجہ میں بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ اور پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری کے امکانات بڑھیں گے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1.6ارب ڈالر کی آئی ایم ایف سے پاکستان کی ڈیل برقرار ہے لیکن اس کے اہداف کے حصول میں ناکامی سے مستقبل میں معاہدہ معطل ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گلوبل فنانشل سروسز کے ادارہ جے پی مورگن نے پاکستان کے 2021-22 کے بجٹ کے ضمن میں جہاں مثبت اعشاریوں کا ذکر کیا ہے وہاں بجٹ پر پڑنے والے منفی اثرات کے ضمن میں کہا ہے کہ آئندہ سال تارکین وطن کی ترسیلات میںکمی کا امکان ہے جبکہ کموڈیٹز جن میں روزمرہ اشیاء دالیں، گھی، چینی، آٹا، صنعتی خام مال اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ واضح رہے کہ ادارہ شماریات کے مطابق رواں سال کے دوران چینی میں 58 فیصد، پام آئل کی قیمت میں 22 فیصد اور سویا بین کی قیمت میں 32 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ عالمی منڈیوں میں ان کموڈیٹیز کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ جے پی مورگن کے مطابق ڈالر کی قیمت میں استحکام جبکہ روپے کی قدر میں کمی کے بعد اس امر کا امکان ہے کہ اس کی قیمت آئندہ مالی سال کے آخر تک 168.70(ایک سو اڑسٹھ روپے 70 پیسہ)روپے تک پہنچ جائے گا۔ جبکہ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور آئی ایم ایف سے کئے گئے توسیعی معاہد ے اور اس سے طے کئے اہداف کا پورا کرنا دو بڑے چیلنجز حکومت کو درپیش ہیں۔ اس کے علاوہ کرنٹ اکائونٹ جو اس وقت سرپلس ہے، خسارہ میں جانے کا امکان ہے۔ جے پی مورگن کا کہنا ہے کہ کووڈ کی مزید ہلاکت انگیزی کی صورت میں آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ ان شرائط پر عملدرآمد سے افراط زر میں اضافہ ہو گا اور مالیاتی خسارہ بڑھے گا۔