حادثوں کے موسم
ہم جسے حادثے کا نام دیتے ہیں حالانکہ وہ مجرمانہ غفلت ہوتی ہے۔مجرمانہ غفلت کا مرتکب قابل ِسزا اور ناقابل معافی ہوتا ہے۔خاص طور پر ایسی صورت میں جب اس حادثہ میں لوگ اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھیں۔ آئے روز ایسے کئی حادثے ہم دیکھتے سنتے اور پڑھتے ہیں اور پھر کچھ لمحوں میں یہ ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اسی طرح سے ان کے پیچھے باعث حادثہ بننے والے بھی نہ کبھی سزا پاتے ہیں اور نہ ہی کچھ دن بعد کسی کو ان کے بارے میں یاد ہوتا ہے۔ یہ غفلت یہ لاپرواہی آخر کب تک ایسے سانحات کا باعث بنتی رہے گی؟ جس طرح باقی جرائم کی ناپ تول اور انصاف کیلئے باقاعدہ ادارے کام کررہے ہیں ان کے لئے کوئی ادارہ تشکیل کیوں نہیں دیا جاتا۔یہ وزارتوں کے نشے میں مدہوش کب قانون کے شکنجے میں آئیں گے۔ ریلوے کا حادثہ ،دوسری ٹرانسپورٹ سے بڑا اور زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔پہلے تو ہمارا ریلوے کا پورے کا پورا نظام ہی درہم برہم ہوا اتنا کہ دیوالیہ ہی نکل گیا اور اب لوگوں کے جنازے نکل گئے۔ایسا دردناک واقعہ ہوا ہے کہ کئی دنوں سے دل دکھی ہے اور آج پھر سے ٹی وی کی خبریں بتا رہی ہیں کہ ریلوے پر ایک اور حادثہ ہوتے ہوتے ڈرائیور کی کمال مہارت سے بچ گیا وہی دکھوں کی داستانیں ہیں وہی دائرہ اور دائرہ حادثوں کا چکر ہے۔کچھ بھی تو نہیں بدل رہا۔ہم نے اپنے گناہ اورجرم تو خیر کیا ہی قبول کرنا ہوتا ہے۔ اْلٹا میڈیا پر حکومت اور حکومت مخالفین کے درمیان لفظی گولہ باری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ صوبے وفاق کو اور وفاق صوبوں کو ذمہ دار قرار دے گا۔کچھ دن یہی جنگ وجدل آپس کے انتقام کے لئے جاری رہے گی اور پھر کس کو وہ سانحہ یاد رہ جائے گا جسے ہم حادثے کا نام دیتے ہیں۔ہم سب اپنی اپنی غفلت کے حصے کے مجرم ہیں اور ہم سب سزاوار ہیں۔آپ کی غفلت یہ کہ آپ نے اپنی کرسیوں کو بچانا ہے عوام کے مفادات کو نہیں اور ہماری غفلت یہ کہ ہم نے بار بار آپ سب میں سے ہی کسی نہ کسی کو منتخب کرکے مرگِ مفاجات کا دْکھ اْٹھاتے رہنا ہے۔آپ سب کو کچھ عرصہ قبل ریل میں آگ لگنے اور اس آگ کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کے خاک ہونے کی خبر بھی یاد ہی ہوگی۔وزیرریلوے سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا، کہا کہ اتوار کو اس کا فیصلہ کروں گا، خیر وہ اتوار نہ کبھی آیا اور نہ ہی آئے گا۔ یہ بھی زیر غور نہ لایا گیا کہ آئندہ روز روز کے ایسے واقعات سے بچنے کی فی الفور کیا صورت حال نکالی جاسکتی ہے۔کبھی پارلیمان میں ایسے موضوعات پر سنجیدہ سیشن ہوئے ہی نہیں ہیں۔کیونکہ پارلیمان والے خود یا ان کی فیمیلیز تو ریلوے پر سفر کرتی ہی نہیں ہیں۔سادہ سا اْصول ہے پھر ایسے بیکار موضوع کو زیرِ بحث لاکر وقت برباد ہی کیوں کیا جائے۔اگر آپ عوام کے منتخب نمائندہ ہیں اسی عوام کی فلاح وبہبود اور ان کی زندگیوںکوآسانیاں فراہم کرنے کیلئے لائے گئے ہیں تو خودائیر لائن کی ٹکٹوں کی مطالبہ چہ معنی وارد۔ویسے بھی جب قوم و ملک کا پیسہ جاتا ہے تو آپ سب کی مراعات کو کم کیوں نہیں کیا جاتا دوردراز سے آنے والوں کا جہاز کی بجائے ریلوے کا ٹکٹ فراہم کیوں نہیں کیا جاتا۔ ملک وقوم کا پیسہ اسی طرح بے دردی سے لٹانے والے سب چور ڈاکو ہیں۔
ادھر عوام کا کبھی مہنگائی سے برا حال ہے کبھی بجلی اور پانی سے اور کبھی جان لیوا حادثات سے کیونکہ جب ریلوے میں غرباء نے ہی سفر کرنا ہے تو قربانیاں بھی انہی کو دینی ہوں گی لیکن سچ کہاہے کسی نے کہاس ملک میں دو دنیائیں آباد ہیں۔ایک غریب کیلئے اورامیروں کے لئے۔امیروں کے سکول ،کالجز، یونیورسٹیاں الگ، ہسپتال اور ڈاکٹرز الگ، سواریاں اور شاہرائیں الگ اور غرباء کیلئے بھی اسی طرح سے دوسری دنیا میں سب کچھ ان کے حساب سے بنایا گیا ہے۔جب تک یہ تضاد باقی رہے گا غریب کے سائیڈ والی دنیا میں ایسے جان لیوا حادثات بھی ہوتے ہیں اور نا انصافی بھی۔گھوٹکی میں جہاں یہ حادثہ پیش آیا ہے وہاں کی ریل پٹڑی عرصہ دراز سے خستہ حالی کا شکار ہے اور انجنوں اور پٹڑی کی مرکت اور حفاظت کے لئے دستیاب ہی نہیں ہیں۔دیکھ لیجئے گا سابقہ مثالوں اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے موجودہ وزیرریلوے بھی اپنے پروں پر پانی تک نہیں پڑنے دیں گے، نہ استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی خود کو ذمہ دار قرار دیں گے بلکہ وجہ اور کی اور بتا دی جائے گی اور خود کو معصوم اور بے گناہ ثابت کردیا جائے گا زیادہ سے زیادہ وزارت کا قلم دان تبدیل ہوجائے گا اْس کے بھی ابھی کوئی آثار نہیں۔
آج ایک عام بندہ بھی ان تمام حکمرانوں کو ڈسکس کرتا نظر آتا ہے۔ان کو اہمیت دیتا ہے ان کے ساتھ سیلفیاں بنوا کر خوش ہوتا ہے کیا ان میں سے کبھی کسی نے میڈیا پر آکر آپ عوام کے بارے میں اتنی سنجیدگی سے بات کی۔ آپ میں سے کسی قابل کے ساتھ سیلفی بنوائی لیکن جائے حادثہ پر لاشوںپرسیاست کرنے کئی گمنام چہرے بھی باہر نکل آئیں گے۔