• news
  • image

ہمیں بھی یاد کر لینا ‘چمن میں جب بہار آئے 

پوری پاکستانی قوم نے ملک کی سلامتی کے ضامن 23 و اں یوم تکبیر بے پایاں جذبے کے ساتھ منایا۔ ہر پاکستانی اس بے مثال کامیابی پر خوش اور شاداں ہے۔ ایٹمی پروگرام پر ابتداء سے تعمیراور تکمیل تک کا سفر پانی پر لکیر کی طرح خفیہ تھا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں تھی کہ پاکستان اپنے دفاع کی صلاحیت کی معراج حاصل کرنے جا رہا ہے۔ یومِ تکبیر جہاں خوشی اور مسرت کا موقع ہے وہیں یہ ایٹمی پروگرام کی تکمیل کیلئے جن کرداروں نے عاجزی اور خاموشی کے ساتھ کام کر کے اسے مسخر کیا ان سب کویاد کرنے کا بھی دن ہے۔ یہ غالباً 1976 کی بات ہے جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب ! کام کیسا چل رہا ہے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انہیں بتایا اور کچھ حائل رکاوٹوں کا ذکر کیا ۔ جنرل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی فکر مندی کے متعلق خود اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ دلائی جس کے بعد وزیر اعظم نے ایک میٹنگ بلائی جو دفتر خارجہ میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں آغا شاہی، میجر جنرل امتیا ز علی خان ،اے جی این قاضی، غلام اسحاق خان، سیکرٹری دفاع اور دیگر اہم افراد کو ہدائت کی کہ وہ ڈاکٹر قدیر خان کے تحفظات کو سنیں اور انہیں دور کرنے کی ہر ممکن عملی کوشش کریں۔ایسی ہی متعدد ملاقاتوں میں یہ بات طے ہو گئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک خود مختار ادرارے کے سربراہ کی حیثیت سے آزادانہ کا م کرینگے اور کسی بھی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔ ایسے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق سے ایک خصوصی ملاقات کی اس ملاقات کے بعد جنرل صاحب نے سینئر آرمی آفیسر بریگیڈئر (بعد میں لیفٹنٹ جنرل) زاہد علی اکبر خان کی خدمات مکمل طور پر ڈاکٹر صاحب کے سپرد کر دیں یوں ڈاکٹر صاحب کے کام میں نکھا ر اور تیزی آ گئی۔ اور تمام تحفظات بھی دور ہوگئے یوں ستاروں سے ستارے جڑنے لگے اور ملکی سلامتی کیلئے سائبان تیار ہونے لگا۔ ایک دن آیا کہ سب کچھ تیار تھا اور محض اعلان کرنا باقی تھا۔ یہ منزل اور صلاحیت پاکستان نے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے زمانے میں حاصل کر لی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہمارے پڑوس میں افغان جہاد جاری تھا۔ پوری دنیا کی نظریںاس جہاد پر تھیں اور جنرل محمد ضیاء الحق خاموشی کے ساتھ مکار دشمن کے پاکستان کے بارے میں مکروہ عزائم کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکتے رہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت اپنے مکروہ عزائم کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں تک آن پہنچا تو جنرل محمد ضیاء الحق نے بھارت جا کر راجیو سے کہا کہ بس ہم نے ایک پیچ ہی کسنا ہے۔ راجیو نے یہ بات سنی تو اس کی سٹی گم ہو گئی۔ چہرے کا رنگ اُڑ گیا اور رگوں میں خون خشک ہو گیا۔ اس کا چہرہ پیلا زرد ہو گیا۔ نبض رک گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی اتنی سی بات سے پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہو گئیں۔ آج جب چمن میں بہار آئی ہے تو ہمیں اپنے ان کرداروں کو یاد رکھنا ہے اور ہمیں محترم مجید نظامی کی خدمات بھی یاد رکھنی ہیں۔ ان تمام تر حقائق کے تناظرمیں یہ دن پاکستان کیلئے باطل قوتوں کے آگے سر نہ جھکانے کیلئے تجدید عہد کا دن ہے۔ ہندو انتہا پسندی اور مودی سرکار کی مکارانہ چالوں کو دفن کرنے کیلئے پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا کافی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت کے کسی بھی حکمران نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ہماری سلامتی کے خلاف ہمیشہ سازش کی۔ سقوط ڈھاکہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں خوف ذدہ رکھنے کیلئے بھارت نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر لی اور 1974 میں ایٹمی دھماکہ کیا۔ جس کے بعد پاکستان نے بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا پختہ عزم باندھ لیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جنہوں نے سنٹری فیوجز تک پاکستان کی رسائی ممکن بنائی اور سفر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اٹھائیس مئی1998  تک آن پہنچا۔یہ وہ مبارک ساعت ہے جب پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھارت کے 5 دھماکوں کے جواب میں 6 ایٹمی دھماکے کر کے چاغی کے پہاڑوں سے بھارت کو ترکی بہ ترکی پیغام دیا۔ اسی دن اسلامی دنیا میں پاکستان پہلی ایٹمی قوت بنا۔ یہ ہمارے لیے اور مسلم دنیا کیلئے فخر و انبساط کا باعث ہے جس سے بھارت کو یہ ٹھوس پیغام ملا ہے کہ وہ ہمیں تر نوالہ ہر گز نہ سمجھے۔ 23 ویں یوم تکبیر کے موقع پر کرونا وائرس کے پیش نظر مختصر تقریبات ہوئی ہیں تاہم ہم اپنے دشمن ملک کو یہ بات باور کراتے ہیں کہ ہم نے ایٹم بم شو کیس میں سجانے کیلئے تیار نہیں کیا۔ مودی سرکار آج ہندو انتہا پسندی پر مبنی اپنی جنونیت کے جس راستے پر چل رہی ہے اس سے پوری اقوام عالم کی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ سرجیکل سٹرائیک کی گیڈر بھکیاں ہم نے روک دی ہیں۔ بلاشبہ ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی ہی ہمارا دفاعی حصار ہے۔ اس حوالے تمام قابلِ فخر کردار ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ہمارا دفاع یقناً ہمارے ایٹمی قوت ہونے کے ناطے سے ہی ناقابل تسخیر ہوا ہے۔ تاہم مکار دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کیلئے ہمیں ایک مربوط اور ٹھوس قومی سلامتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہماری ٹیکنالوجی درحقیقت پوری مسلم دنیا کیلئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ ایٹمی قوت کا حامل پاکستان بلاشبہ قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا ہمارے علاوہ پوری دنیا کیلئے باعث فخر ہے۔ 
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن