علامہ اصغر علی کوثر وڑائچ کا علمی کارنامہ
شہنشاہ الفاظ و سلطان المعانی و تاجدارِ سخن علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ سے تعلقات کا عرصہ کم و بیش ساٹھ سال پر محیط ہے۔ ان سے تعارف تو ایک صحافی کی حیثیت سے ہی ہوا اور وہ بھی فلمی اخبار نویس کے طور پر لیکن عقیدت و احترام کا رشتہ اس وقت قائم ہوا جب ان کی کاوش ’’منظوم مفہوم قرآن مجید‘‘ منظر عام پر آئی۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا طویل عرصہ روزنامہ امروز، روزنامہ کوہستان، روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ پاکستان میں گزارا۔ نوائے وقت اور پاکستان میں ان کا کالم ’’لاہوریات‘‘ بہت دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔ جس میں وہ صوبائی دارالحکومت میں منعقد ہونے والی علمی، ادبی اور سیاسی تقریبات کا احوال سپرد قلم کرتے تھے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی شائد ہی کوئی تقریب ایسی ہوگی جس کی رو داد انہوں نے انپے کالموں میں نہ لکھی ہو۔ اس لحاظ سے ان کا شمار روزنامہ نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ جناب مجید نظامی کے پسندیدہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔ جناب مجیب الرحمن شامی بھی ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب منظوم مفہوم قرآن مجید کا کارنامہ سامنے آیا تو شامی صاحب نے ان کے علمی و دینی شاہکار پر اپنی غیر معمولی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم کوثر صاحب کی نذر کی۔ کوثر صاحب نے 5 نومبر 1987 ء کو یوم عید میلاد النبیؐ کی تقریب سعید پر رات پونے آٹھ بجے اپنی رہائش گاہ 412 ۔ جہاں زیب بلاک، سٹریٹ نمبر11 علامہ اقبال ٹائون پر قرآن مجید فرقان حمید کے منظوم اُردو ترجمہ کی سعادت کا آغاز کیا۔ ان کے والد گرامی چودھری غلام حیدر وڑائچ قرآن مجید کا مکمل منظوم اُردو ترجمہ پڑھ کر اور اسے اپنی دعائوں کے ساتھ ایک کارنامہ قرار دے کر 2 اور 3 اپریل 2006 ء کی درمیانی شب اس دارِ فانی سے دارالبقاء کو عازم سفر ہوئے۔ منظوم ترجمہ کی یہ سعادت حاصل کرنے میں کم و بیش پندرہ سال کا عرصہ لگا۔ کوثر صاحب نے اپنی بزم مشاورت میں حضرت شاہ ولی اللہؒ، شاہ عبدالقادر محدث دہلویؒ، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ اسیر مالٹا مولانا شبیر احمد عثمانیؒ۔ مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مفتی احمد یار خان نعیمیؒ، شاہ احمد رضا خان بریلویؒ، مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ، علامہ ثناء اللہ پانی پتی، مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا فتح محمد جالندھریؒ ، پیر کرم شاہ الازہریؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور علامہ شبیر بخاری کے تراجم و تفاسیر کو شامل کئے رکھا اور ان سے خوب خوب اکتساب فیض کیا وہ روزانہ نماز فجر کے بعد قرآن کریم کے مفاہیم و مطالب کو منظوم کرنے کے کام کا آغاز کر دیتے اور روزانہ دو گھنٹے اس کام میں صرف کرتے مگر صرف سات اشعار ہی کہہ پاتے کیونکہ صحافتی زندگی کی مصروفیات اور مشاغل سدّ ِ راہ بنتے رہے۔ اس وجہ سے کام کی تکمیل کی رفتار سست رہی۔ کوثر صاحب روزنامہ امروز میں 1978 سے 1991 تک چودہ برس فلم میگزین ایڈیٹر اور 1991ء سے مئی1996 ء تک پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز میں کلچرل ایڈیٹر رہے اور وہ رتن چند روز پر امروز اور پاکستان ٹائمز کے دفاتر میں بھی منظوم ترجمہ کے لئے کچھ وقت نکال لیتے تھے۔ جب یہ اخبارات پرائیویٹائز ہوئے تو انہوں نے تقریباً دو سال اپنے گھر میں بند رہ کر سارا وقت اس کام کے لئے وقف کر دیا اور 26 اپریل 2002 کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے بے پایاں فضل و کرم سے انہیں قرآن مجید کے منظوم اُردو ترجمہ کی تکمیل کی سعادت انہیں نصیب ہوئی۔ علامہ اصغر علی کوثر وڑائچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی شخصیت کی طرف سے قرآن حکیم کے پیش کردہ اُردو ترجمہ کو منظوم نہیں کیا بلکہ اپنے فکر و تدبر اور اپنی قرآن فہمی کی استطاعت کے مطابق اپنے علم و ہنر، فہم و شعور، فکر و تدبر اور صبر و استقامت کے ساتھ یہ سعادت حاصل کی۔
علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ کے دادا استاد حضرت علامہ سیماب اکبر آبادی نے 1943ء میں قرآن حکیم فرقان حمید کا منظوم اُردو ترجمہ کیا تھا۔ علامہ اصغر علی کوثر وڑائچ نے انہیں کی قائم کردہ روحانی روایت کی پیروی میں قرآن حکیم کے مفہوم کو منظوم کرنے کا ارادہ باندھا۔ ان کے والد چودھری غلام حیدر وڑائچ ساکن چک 87 جنوبی سرگودھا اور ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ حیدر وڑائچ کو جب ان کی اس خواہش کاعلم ہوا تو انہوں نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس مشق میں ان کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں کیں جو قبول ہوئیں اور انہوں نے یہ معرکہ سر کرلیا۔
علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ کی اہلیہ محترمہ ساجدہ کوثر برصغیر کے معروف صحافی حاجی صالح محمد صدیق کی صاحبزادی ہیں، جب علامہ صاحب نے اخباری ملازمت کی زنجیریں توڑ کر منظوم ترجمہ کے کام کو پورا وقت دینے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اپنی اہلیہ کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ اب کچھ عرصہ اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا مگر یہ فریضہ انجام دینے کے لئے پورا وقت درکار ہے۔ ظاہر ہے اس سے مالی مشکلات تو آئیں گی، ان کی رفیقہ حیات نے ان کی بات سنی اور کہا کہ آپ بے فکر ہو کر یہ کام انجام دیں، ہمارا اللہ مالک ہے اور اس طرح انہوں نے صحیح معنوں میں رفاقت کا حق ادا کردیا۔
علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ کے دو صاحبزادے انجینئر چودھری محمد سجاد اصغروڑائچ اور آرٹسٹ چودھری محمد علی حیدر وڑائچ اور صاحبزادی فاطمہ احتشام(ایم ایس باٹنی) ہیں۔ ان کے داماد چودھری احتشام علی میڈیسن کے بڑے ڈسٹری بیوٹر ہیں اور حمید نظامی روڈ پر ان کا بڑا دفتر ہے۔ ان کی نواسی بیاء عالم اور نواسے زوہیب احتشام نے قرآن مجید کے مفہوم کے منظوم ترجمہ میں آیت بہ آیت ان کی مدد کی۔
علامہ… چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ کے نام کا لازمی حصہ رہا، اُن کی پنجاب یونیورسٹی کی سند میں یہی نام درج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کی پوری تاریخ میں کسی طالب علم کا اس قدر طویل نام نہیں رہا اور نہ ہی دورِ طالب علمی میں کسی کو مستند علامہ بننے اور کہلانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔