سندھ میں حکومت ہی نہیں، کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے ا ٓپر یٹ کر رہا ہے: جسٹس گلزار
کراچی (وقائع نگار +نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، یہ ایک نالہ صاف نہیں کرا سکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں شاہراہ فیصل پر ٹاور کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاہراہ فیصل کا روڈ کبھی کم نہیں ہوا بڑھا ہی ہے۔ اس کے دونوں اطراف کا سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا۔ سب کرپٹ ہیں، کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے۔ سارے رفاہی پلاٹس ہیں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے۔ پیسے دیں جو چاہے کریں۔ سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ان حالات میں صوبہ کیسے گزارا کرے گا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بتائیں، آپ سب جانتے ہیں بتائیں ہمیں، آپ کی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے؟۔ کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا۔ پارلیمانی طرز حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے اور پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے۔ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے۔ حکومت کینیڈا سے چلائی جا رہی ہے اور کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کر رہا ہے۔ یونس میمن ساری بڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔ صوبے میں ایک تعلیم کا پراجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014ء میں شروع ہوا۔ 2017ء میں ختم ہوا، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی۔ آر او پلانٹس کا پیسہ 1500 بلین روپے ہے۔ تھر کے لوگ آج بھی پانی کو ترستے ہیں۔ سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ۔ آپ لوگ فیصلہ کرلیں کرنا کیا ہے اس طرح حکومت نہیں چلتی۔ بجٹ کا مطلب اپنے لیے فنڈ مختص کرنا ہوتا ہے عوام کے لیے نہیں، لوگوں کو تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کے وکلا سے کمشنر کراچی کی رپورٹ پر جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سوائے سندھ کے پورے ملک میں ترقی ہو رہی ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ لوگوں نے سروس روڈ پر بلڈنگ تعمیر کردی؟۔ بلڈر کے وکیل نے کہا کہ پل کی تعمیر کے وقت سڑک کا سائز کم کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاہراہ فیصل کا سائز کبھی کم نہیں ہوا، شارع کو وسیع کرنے کیلئے تو فوجیوں نے بھی زمین دے دی تھی۔ سارے رفاعی پلاٹوں پر پلازے بن گئے۔ سمجھتے ہیں عدالت کو پتا نہیں چلے گا؟۔ حکومت کہاں ہے؟؟ کون ذمہ داری لے گا؟؟؟ جو پیسہ دیتا ہے اس کا کام ہوجاتا ہے کتنا ہی غیر قانونی کام ہو۔ اب بھی دھندا چل رہا ہے ایس بی سی اے کا کام چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت؟ ایسی ہوتی ہے حکمرانی؟؟؟ آپ کی حکومت ہے یہاں کس کی حکومت ہے؟۔ گورننس نام کی چیز نہیں ہے یہاں۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے وکیل کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا سوائے سندھ کے، تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔ ایک آر او پلانٹ نہیں لگا، پندرہ سو ملین روپے خرچ ہوگئے۔ حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے؟؟ صورت حال بدترین ہورہی ہے۔ مسٹر ایڈوکیٹ جنرل اپنی حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا چاہتے ہیں آپ؟ جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آجائے گا۔ پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہوئے آتے ہیں۔ جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے کسی کو نظر نہیں آتے۔ کم از کم پندرہ بیس تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے۔ کسی کو نظر نہیں آیا، ابھی وہاں رکے ہیں کل یہاں بھی آجائیں گے۔ اتنے سالوں سے آپ کی حکومت ہے یہاں کیا ملا شہریوں کو ؟؟ ایڈووکیٹ جنرل نے درخواست کی کہ کل بجٹ کی تقریر ہے دو دن کی مہلت دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بجٹ تو ہر سال پیش کرتے ہیں مخصوص لوگوں کیلئے رقم مختص کردیتے ہیں بس، بجٹ تو پچھلے سال بھی آیا تھا لوگوں کو کیا ملا ؟؟۔ سپریم کورٹ نے کراچی رجسٹری نے گجر اور اورنگی نالوں کی چوڑائی پر کام شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے متاثرین کی معاوضے اور آپریشن روکنے کی درخواست مسترد کردی۔ جسٹس گلزار احمد نے ریلوے اراضی کیس میں ریمارکس دیئے کہ ریلوے حادثے کے بعد پریس کانفرنسز دیکھیں لگا کہ وزیر اور سیکرٹری استعفیٰ دیں گے مگر نہیں دیا۔ ریلوے کے وکیل نے کہا کہ سکھر سے کراچی تک ریلوے کا 82 فیصد ٹریک خراب ہے، وزیر ریلوے کو کہتے ہیں کہ بنائیں تو کہتے ہیں ایم ایل ون بنے گا تو دیکھیں گے۔ ایم ایل ون بنانے میں 9 سال لگ جائیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ لوگ صرف لوگوں کو مروا رہے ہیں، ریلوے حادثے کے بعد جاں بحق افراد کو 15،15 لاکھ معاوضے کا اعلان کر دیتے ہیں بس، لوگوں کو آپ کے 15 لاکھ نہیں چاہیے ان کو ان کے والد، والدہ، بھائی چاہئیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے ر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کی سواری تباہ ہو گئی ہے۔ صرف غریب ہی کو نقصان ہو رہا ہے، بڑے لوگوں کو کچھ نہیں ہو رہا۔ عدالت نے کالا پل ریلوے اراضی پر پارک بنانے کے اقدامات کا حکم دے دیا۔ عدالت نے حکم لکھوایا کہ ریلوے کا سفر خطرے سے کم نہیں ہے، اس کا سفر لوگوں کیلئے خطرناک بن گیا ہے۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ استعفی دینے سے اگر لوگ واپس ہو سکتے ہیں تو وہ تیار ہے یہ انتہائی تشویشناک ہے۔ ریلوے حکام کی کارکردگی ناقص ہے۔ وزیراعظم اس معاملے کو خود دیکھیں، عدالت نے ریلوے زمین لیز کرنے یا فروخت کرنے کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ ریلوے زمین صرف ریلوے مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتی ہے۔ کراچی میں پانی سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب ٹینکر کو پانی ملتا ہے تو گھروں میں کیوں نہیں آتا؟ جب واٹر بورڈ کا محکمہ کوئی کام نہیں کر رہا تو تنخواہیں کس بات کی لے رہے ہیںِ؟۔ لیاری والے کالا پانی پیتے ہیں، لیاری ایکسپریس وے کہ نیچے بورنگ ہو رہی ہے کسی دن گر جائے گا۔ پتہ چلا ہے کہ ڈیفنس کلفٹن میں خاص لوگوں کو پانی دیا جاتا ہے۔ وہاں پر نہ تو پانی ہے نہ سیوریج ہے بس پلاٹ بنا کر بیچتے ہیں۔ آپ اگر سہولیات نہیں دے سکتے تو سکیم مت بنائیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ واٹر بورڈ تحلیل ہونا چاہیے، پمپنگ سٹیشنز پر نجی لوگ رکھ لیں، اس طرح کء ارب روپے بچ جائیں گے۔ عدالت نے 16 جون کو چیئرمین واپڈا کو طلب کر لیا اور کے فور منصوبے کی تفصیلی بھی طلب کر لی گئی۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں مقامی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ گلشن اقبال کے تفریحی پارک میں قائم پویلین اینڈ کلب کو مسمار کر کے تمام تجارتی سرگرمیاں بھی بند کر دے۔ عدالت نے الہ دین پارک سے متص زیر تعمیر رہائشی و کمرشل کثیر المنزلہ رائل پارک عمارت کو گرانے کا حکم دیا تھا اور راشد منہاس روڈ پر واقع دو ایکڑ پلاٹ کی لیز کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو زیر تعمیر عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دیا تھا۔