بجٹ کا موسم
آج کل بجٹ کا موسم ہے وفاق نے پہل کرتے ہوئے بجٹ کے الائو میں چھلانگ لگا دی ہے۔ اب صوبوں کی باری ہے دیکھتے ہیں‘ وہ کیا چن چڑھاتے ہیں۔ کہتے ہیں جیسا دیس ویسا بھیس آپ افسردگی کے ماحول میں شہنائی نہیں بجا سکتے۔ اسی طرح بجٹ کے موسم میں کسی اور ایشو کو نہیں چھیڑا جا سکتا۔ ویسے موسموں کے حوالے سے ہم کوئی ایسی پلاننگ نہیں کر پائے جس سے ہم موسموں کی سختیوں سے نمٹ سکیں۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ کن دنوں میں بارشوں کی بھرمار ہوگی۔
ہم بارشوں سے قبل منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں‘ بارشوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود جب بارشیں ہوتی ہیں تو ہم بارشوں کے پانی میں بہہ جاتے ہیں کیونکہ ہم صرف گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے والے کام کرتے ہیں۔ مستقل حل کی طرف نہیں جاتے‘ ہم ڈوب مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن بچائو کے لیے کچھ نہیں کر پاتے اگر ہم بارشی پانی کو سٹور کرنے کے لیے ذخائر بنا لیں تو ایک تو ہم ڈوبنے سے بچ جائیں اور دوسرا اس پانی کو استعمال میں لا کر اپنی ضرورتیں پوری کر لیں لیکن قربان جائیں حکمت کاروں پر جن کی حکمت کی بدولت ہم سخت گرمی میں پانی کی کمی کے باعث خشک سالی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر پانی کی تقسیم پر لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ گرمی میں جھلس کر مر جاتے ہیں۔ سردی میں ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں بارش ہو جائے تو ڈوب کر مر جاتے ہیں نہ ہو تو جھلس کر مر جاتے ہیں اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں دنیا میں پاکستان سے زیادہ سخت موسم ہیں لیکن ان لوگوں نے موسموں سے نمٹنے کا فن جان لیا ہے اب وہاں موسم تباہیاں لے کر نہیں آتے زندگی کی روانی موسموں کی بھینٹ نہیں چڑھ جاتی سخت موسموں میں بھی کاروبار زندگی رواں رہتے ہیں۔ اب تو لوگوں نے زلزلوں پر کنٹرول کر لیا ہے۔ سمندروں کے آگے بندھ باندھ دیے ہیں پانی کے نیچے سے راستے بنا لیے ہیں اور ہم سے ندی نالے کنٹرول نہیں ہو رہے یہ سارا کچھ سوچنے والوں کے لیے ہے کہتے ہیں ناں کہ اگر عقل نہیں تے موجاں ای موجاں چلو فیر موجاں کروں سانو کی، اگر آپ نے ایسے ہی رہنا ہے تو رہتے رہیں۔ چند دن کی کڑاکے کی گرمی نے بل کس نکال دیے تھے پھر اتوار کی صبح بارش نے موسم خوشگوار کر دیا اور لوگوں کے جھلسے ہوئے چہروں پر رونق آگئی۔ یہ قدرت ہے کہ چند لمحوں میں کایا پلٹ دیتی ہے کل تک اے سی بھی کام نہیں کر رہے تھے‘ ہلکی سی بارش نے پنکھوں کی ہوا بھی ٹھنڈی کر دی اور تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔
بات بجٹ کے موسم کی ہو رہی تھی اور بات دوسرے موسموں تک چلی گئی ویسے جس طرح ہمیں دوسرے موسموں سے نمٹنا نہیں آتا اسی طرح ہم سیاسی موسم کو بھی نہیں سمجھ پاتے پاکستان میں سب سے بے اعتبارا موسم سیاسی موسم ہے جس کے بارے میں یہ کہنا درست ہو گا کہ کچھ سمجھ نہ آئے خدا کرے۔ پاکستان کی سیاست بھی برسات کے موسم جیسی ہے جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب برس جائے اور کب پسینے چھڑوا دے۔
کل بجٹ کے موقع پر پیپلز پارٹی میاں شہباز شریف کے پیچھے ایسے کھڑی تھی جیسے ٹیچر کے پیچھے سٹوڈنٹس کھڑے ہوں لیکن باہر نکلتے ہی بلاول بھٹو صاحب ایسے گرج برس رہے تھے اور ن لیگ وجے یو آئی کو کہہ رہے تھے کہ آپ کو کیا پتہ ہو سیاست کیا ہوتی ہے‘ آپ پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائیں آپ کو سیاست سیکھائیں پارلیمنٹ میں بلاول کہہ رہے تھے۔ ہمارے ووٹ شہباز شریف کی صوابدید پر اور باہر کہہ رہے ہیں آپ استعفوں کی بات کر رہے تھے اب استعفے کیوں نہیں دیتے اب الیکشن کیوں لڑ رہے ہو۔ پی ڈی ایم کی دال جوتیوں میں تسلسل کے ساتھ بٹ رہی ہے اور عزم ہے کہ ہم بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے حالانکہ حکومت نے بندوبست کر کے ہی بجٹ پیش کیا تھا بجٹ تک موسم ناہموار ہونے کی پشین گوئی ہے اس کے بعد مطلع صاف ہو جائے گا حکومت بڑا اچھا بجٹ دے کر ایک غلطی کر بیٹھی تھی بلکہ ’’ بھونڈوں کی کھکھڑ‘‘ میں ہاتھ ڈال بیٹھی تھی لیکن اس کا احساس حکومت کو بجٹ اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے ہی ہو گیا تھا۔
وزراء نے اس کی مخالفت کر کے فیصلہ واپس کروا دیا تھا لیکن شوکت ترین صاحب روانی میں پڑھ گئے جس پر تنقید کا ردھم ابھی بن ہی رہا تھا کہ بجٹ کے اگلے دن شوکت ترین نے وضاحت کر دی۔ یہ موبائل فون کی کال پر ٹیکس ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پر ٹیکس تھا جو واپس لے لیا گیا ہے، گلاں دی گالڑ ویلی قوم نوں تے کم ای ایہو آئوند اے،حکومت کا خیال تھا کہ وہ لمبی لمبی چھوڑنے والوں کو تین منٹ تک محدود کر لے گی اور انٹرنیٹ کو مہنگا کرکے سوشل میڈیا کو بامقصد بنا لے گی لیکن پھر کسی نے سمجھایا کہ آپ کی تو بنیاد ہی نوجوان نسل پر رکھی گئی تھی اور آپ کی تو ساری موجیں ہی سوشل میڈیا کی وجہ سے ہیں اگر ان کے صارفین کو اپنے خلاف کر لیا تو آپ کسی جوگے نہیں رہیں گے جس پر وزیر خزانہ نے باضابطہ اعلان کر دیا کہ نہ تو فون کال پر تین منٹ کے بعد ریٹ بڑھایا جا رہا ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ مہنگا کیا جا رہا ہے۔
جائو موجاں مارو حکومت نے اچھا کیا ورنہ سارا بجٹ ایک طرف اور اس حوالے سے جو سوشل میڈیا پر طوفان اٹھنا تھا اس پر حکومت کو لگ پتہ جانا تھا۔ اب اسمبلی میں بجٹ پر بحث شروع ہے۔ اپوزیشن کے فلاسفرز نے بجٹ میں بڑے موٹے موٹے کیڑے نکال لیے ہیں حکومت کو ڈیفنسیو کرنے کے بھی حربے آزمائے جائیں گے تنقید در تنقید اور جواب در جواب کے ماحول میں اسمبلی کی رونقیں دیکھتے رہیں۔