مری سادہ لوحی سمجھتی نہیں ۔۔!!
پاکستانی عوام کے لئے بجٹ کی کہانی وہی برس ہا برس دہرائی جانے والی ایک ایسی داستان ہے جس میں عوام کے لئے ریلیف کے نام پہ نمبروں کا ایک گورکھ دھندا لوگوں کے سامنے بجٹ کہ کے رکھ دیا جاتا ہے جسے حکومت وقت ہمیشہ تاریخی اور عوام دوست قرار دیتی ہے جب کہ اپوزیشن کے نزدیک جو بھی بجٹ ہو وہ عوام دشمن ہی قرار دیا جاتا ہے ۔ عوامی ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچنے والے عوامی نمائندے حکومتی بنچوں میں بیٹھنے والے واااہ واااہ اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ اپوزیشن بنچوں پہ بیٹھنے والے صرف چور چور کہنے کی تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں نا کوئی مہنگائی ختم کرنے کا کوئی حل ، کوئی تجویز پیش کرتا ہے نا غریبوں کی بات کی جاتی ہے ۔ بجٹ کسی بھی حکومت کی کامیابی کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے اور ہماری حکومتیںخواہ کوئی بھی ہوں اس معاملے میں سب ایک جیسی ہی رہی ہیں کیونکہ جو بھی بجٹ آج تک آتا رہا ہے عوام کے نام پہ ہمیشہ اشرافیہ کو ہی کسی نہ کسی مد میں نوزا جاتا رہا ہے ۔ہر سال لوگوں کے دل میں ایک امید جگائی جاتی ہے کہ اب کی بار عوام کا خیال رکھا جائے گا ، مہنگائی کم ہو گی ، غریبوں کو بھی اچھے دن دیکھنے کو ملیں گے لیکن پھر ہوتا کیا ہے ؟ خوبصورت لفاظی کے ساتھ ایک تقریر پیش کر دی جاتی ہے اور پریشان حال عوام کو اچھے دنوں کی آس دلا کر پرانی کہانی کو ایک خوش رنگ عنوان دے کر لپیٹ دیا جاتا ہے اور سادہ لوح قوم ان حسابی کتابی اشاروں کو سمجھنے سے قاصر ہی رہتی ہے ۔
عمران خان صاحب کی جب حکومت آئی تو انہوں نے عوام کے سامنے ا س ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ کیا وہی ریاست مدینہ جس کاایک باسی کھڑے ہو کے خلیفہ وقت سے سوال کرتا ہے کہ بتا اے عمر تیرے تن پہ یہ نیا کپڑا کہاں سے آیا ؟ آج تین سال بعد وزیر اعظم صاحب اپنے بنی گالا کے محل سے باہر آ کے اپنی عوام کے حالات زندگی کا جائزہ تو لے کر دیکھیں کتنے لوگوں کو دن میںپیٹ بھر کے تین وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے ؟کتنے لوگوں کے تن بدن کپڑوں سے ڈھک گئے ہیں اب انہیں موسموں کی شدتیں بدن کو چیرتی ہوئی محسوس نہیں ہوتیں ؟ کتنے لوگ راتوں کو اپنی چھت تلے محفوظ سوتے ہیں؟اور دوسری طرف ساتھ ہی اپنے وزرا ء مشیران کے اثاثوں پہ بھی نظر ڈالیںجو حکومت میں آنے سے پہلے کتنے تھے اور اب کتنے ہیں۔ سرکاری بجٹ دستاویز کے مطابق اس وقت پاکستان میں پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ بلوچستان غربت کی شرح سب سے زیادہ 71.2 فی صد ہے ، گلگت بلتستان میں غربت 43.2 فی صد ہے ۔ چاروں صوبوں میں 67 اضلاع کم ترقی یافتہ ہیں ۔ وزیر اعظم صاحب آپ غربت کو مٹانے کا عہد کر کے حکومت میں آئے تھے ، غریبوں کو ختم کرنے کا مینڈیٹ نہیں دیا گیا تھا آپ کو ۔۔۔
دوسری طرف ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے ۔ اس وقت مقامی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ اڑتیس ہزارارب تک جا پہنچا ہے ، جس ملک کے بجٹ کا پچاس ساٹھ فی صد صرف قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں نکل جائے باقی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ترقیاتی کاموں کی نظر ہوجائے تو پیچھے صحت ، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے ایک عام آدمی ، تنخواہ دار اور دیہاڑی دار مزدور کے نصیب میں سوائے حسرت اور مایوسی کے کیا رہ جاتا ہے ۔
ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے اپوزیشن نے شور شرابہ کرنا ہے ، حکومت نے بجٹ پیش کرنا ہے اس کے بعد اپوزیشن اس بجٹ کو ریجیکٹ کر دے گی اور حکومت اس بجٹ کو عوام دوست بجٹ بولے گی بعد میں مل کے اسی اسمبلی سے اسے پاس کرا لیا جائے گا اور ہم جیسی عوام کچھ تالیاں بجا کر اور کچھ حکومت وقت کو گالیوں سے نواز کر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہو جائے گی ایک عام آدمی کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گاوہ بس یہی سوچتا رہے گا اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ کیسے پالنا ہے ان کے دن مشقت میں اور راتیں یونہی تاریکی میں گزرتی رہیں گی ۔حکومت خواہ کوئی بھی ہو جمہوری یا آمرانہ عام شہری کے لئے ہر دور میں اذیت ہی اس کا مقدر ہے اسے نہ کوئی حالات بدلنے کا یقین ہے نا اچھے دنوں کی کوئی امید یہ بے بسی اور بے یقینی آخر کب تک آزماتی رہے گی؟ بجٹ کی کامیابی اور ناکامی اعدادو شمار سے نہیں عوام کی حالت زندگی سے ناپی جاتی ہے ۔ جب ایک عام آدمی کے چہرے پہ خوشی کی رمق دکھائی دے گی ، ایک مزدور خوشحال ہوگا ، کسان کے اپنے گھر میں بھی پیٹ بھر نے کے لئے وافر اناج موجود ہوگا اور میرے ملک کا نوجوان اپنا مستقبل اپنے ملک میں ہی روشن دیکھنے لگے گا وہ حقیقی طور پہ کسی بجٹ اور حکومت کی کامیابی کی دلیل ہو گی ۔