قومی اسمبلی میں جنگ بجٹ کاپیوں سے حملے گالیاں کئی زخمی
اسلام آباد (نامہ نگار/ چوہدری شاہد اجمل) قومی اسمبلی میں رواں مالی سال کے پیش کردہ بجٹ پر بحث سے متعلق اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان اور اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی کی تاریخ کی بدترین بدکلامی اور کشیدگی دیکھی گئی۔ دونوں طرف سے ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیوں سے حملے کئے جس سے کئی ارکان زخمی ہو گئے۔ جس کے باعث سپیکر نے اجلاس آج سہ پہر دو بجے تک ملتوی کردیا۔ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ارکان نے ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے اسے میدان جنگ میں تبدیل کردیا۔ حکومتی ارکان کی طرف سے بجٹ کی کاپیاں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو مارنے کی کوشش سے حالات کشیدہ ہو گئے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیں۔ ایوان میں ’’جنگ‘‘ کا سماں تھا۔ پوری ہنگامہ آرائی کے دوران پیپلز پارٹی اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے چور ہے بھئی چور ہے سارا ٹبر چور ہے اور مسلم لیگ(ن)کی جانب سے ڈونکی راجہ کی سرکار نہیں چلے گی، گو نیازی گو، کے نعرے لگائے گئے۔ دونوں جماعتوں کے ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیوں کے بنڈل اچھالے جس سے متعدد سکیورٹی اہلکار اور ارکان اسمبلی بھی معمولی زخمی ہو گئے۔ وفاقی وزراء اپنے ارکان کو ہنگامہ آرائی کے لیے اکساتے رہے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان ہنگامہ آرائی میں پیش پیش تھے۔ منگل کو سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر کا آغاز کیا تو وفاقی وزرا سمیت پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان میں شور شرابا شروع کیا اور ڈیسک پر بجٹ کتاب بجاتے رہے۔ اس موقع پر اسد قیصر نے ایوان کو چلانے کی کوشش کی اور حکومت و اپوزیشن اراکین سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشستوں پر بیٹھنے اور اپوزیشن لیڈر کی تقریر سننے کا کہا۔ حکومتی اراکین کی جانب سے ایوان میں ہنگامہ آرائی کے باعث سپیکر قومی اسمبلی نے متعدد مرتبہ اعلان کیا کہ ایوان کی کارروائی کو جاری رہنے دیا جائے تاہم ناکامی پر انہوں نے ایوان کی کارروائی کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا۔ اجلاس کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں جھڑپ بھی ہوئی۔ دوران اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب پی ٹی آئی کے اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان نے مسلم لیگ (ن)کے رکن شیخ روحیل اصغر کو بجٹ کی کتاب دے ماری اور ان کے لیے نا مناسب زبان استعمال کرتے رہے۔ کتاب مسلم لیگ (ن) کے رکن افتخار نذیر کو لگی تو انہوں نے واپس علی نواز کو دے ماری۔ اس کے بعد دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو حکومتی ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔ حکومتی ارکان منہ میں سیٹیاں ساتھ لائے تھے، ایوان مسلسل سیٹیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ اس دوران عصر کی نماز کا وقفہ کر دیا گیا۔ جس کے بعد دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو دونوں طرف کے ارکان میں جوش و خروش زیادہ تھا۔ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری خواتین ارکان میںنعرے بازی میں سب آگے تھیں۔ اس دوران سپیکر کی طرف سے بھاری تعداد میں سکیورٹی کے عملے کو بھی بلوا لیا گیا۔ مردو خواتین سکیورٹی اہلکار اپوزیشن اور حکومت کی نشستوں کے درمیان لائنیں بنا کر کھڑے ہو گئے۔ اس دوران شیریں مزاری کی سکیورٹی اہلکاروں سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ سپیکر کی طرف سے ویڈیو بنانے میں مصروف ارکان کی موبائل قبضے میں لینے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کو ہدایت کی گئی لیکن ارکان نے اپنے موبائل فون سکیورٹی اہلکاروں کو نہ دیئے۔ جب ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا تو شاہ محمود قریشی پہلی نشستوں پر موجود تھے لیکن اس کے فوری بعد وہ ایوان سے نکل گئے۔ ہنگامہ آرائی اور سیٹیاں بجانے میں پی ٹی آئی کے رکن فہیم خان سب سے آگے تھے اور (ن) لیگ کے ارکان سے الجھتے رہے۔ اس پوری ہنگامہ آرائی کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو زرداری اپنے ارکان کے ہمراہ اپنی نشستوں پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ جبکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور لیگی رکن ملک سہیل کمڑیال کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی۔ حکومتی رکن فہیم خان اور ن لیگ کے ناصر بوسال کے درمیان تلخ کلامی بڑھی تو ناصر بوسال نے فہیم خان کو باہر نکلنے کا اشارہ کرتے ہوئے دو دو ہاتھ کر نے کے لیے للکارا۔ لیکن سکیورٹی اہلکار درمیان میں آگئے۔ اسی دوران حالات کشیدہ ہو گئے اور وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے بجٹ کی کاپی اپوزیشن ڈیسکوں کی طرف اچھال دی۔ جس کے بعد دونوں طرف سے بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے کو مارنے کا آغاز ہو گیا۔ سکیورٹی اہلکار بھی ہنگامہ آرائی کو روکنے میں ناکام ہو گئے اور متعدد اہلکار بجٹ کی بھاری بھرکم کاپیاں لگنے سے معمولی زخمی بھی ہوئے۔ ایم کیو ایم، جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور علی وزیر دونوں جماعتوں کے ارکان کے درمیان بیچ بچائو کراتے رہے۔ اجلاس ملتوی کئے جانے کے باوجود لیگی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان گھمسان کا رن جاری رہا۔ اجلاس کے دوران قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے سکیورٹی کم ہونے پر سینٹ سیکرٹریٹ سے مدد طلب کی جس کے بعد ایوان کی کشیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے اضافی سارجنٹ ایٹ آرمز کی خدمات قومی اسمبلی کے سپرد کردی گئیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران بجٹ کی کاپیوں سے حملے میں خواتین سمیت کئی ارکان زخمی ہو گئے۔ قومی اسمبلی میں بجٹ کاپیوں کی لڑائی میں پی ٹی آئی کی ملیکہ بخاری، علی نواز و دیگر زخمی ہو گئے۔ بجٹ کی ایک کتاب ملیکہ بخاری کی آنکھ پر لگی۔ ملیکہ بخاری کو طبی امداد دی گئی۔ تحریک انصاف کے ایم این اے فہیم خان نے بیان میں کہا ہے کہ میرے ہاتھ پر زخم آیا ہے۔ ہماری بہت سی خواتین ارکان بھی زخمی ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن) والے غنڈہ گردی کی سیاست کر رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی تقریر سے حکومتی بنچوں میں آگ لگ گئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اپوزیشن اراکین کو وارننگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بجٹ پر تنقید حزب اختلاف کا حق ہے لیکن مہذب طریقہ اختیار کیا جائے۔ اپنی بات کریں اور حکومتی مؤقف نہ سنیں‘ یہ مناسب نہیں۔ اگر اپوزیشن ہماری نہیں سنے گی تو ہم بھی ان کی نہیں سنیں گے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں لڑائی علی گوہر بلوچ کے نعروں سے شروع ہوئی۔ لیگی ایم این ایز نے پارلیمانی اقدار کو بالائے پشت ڈال کر گالیاں دیں۔ نوجوان ایم این ایز جذباتی ہو گئے۔ پھر بجٹ کی کتابیں پھینکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ہنگامہ آرائی میں ملوث ارکان کے آج ایوان میں داخلے پر پابندی لگادی ہے، سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آج پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا اس کی مکمل تحقیقات کرائی جائے گی۔ غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے والے ارکان کو آج ایوان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسد قیصر نے مزید کہا کہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے غیر پارلیمانی رویے کا اظہار کیا گیا۔