پنجاب کا بجٹ ‘ اور تبدیلی کس کو کہتے ہیں؟
وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی قیادت میں پنجاب حکومت نے اپنا تیسرا سالانہ بجٹ برائے 2021-22 پیش کر دیا ہے۔ ایک عام آدمی سے لے کر صنعتکار، طالبعلم، سرکاری ملازم سے کسان اور برآمد کنندہ تک ہر کوئی حیران ہے کہ کورونا جیسی وبا سے عوام کو بچانے کے لئے اربوں روپے کے اخراجات کے بعد بھی موجود وسائل میں ایسا بجٹ کیسے بنایا گیا جس کو ہر لحاظ سے عوام دوست میزانیہ کہا جا سکتا ہے۔ جس وقت اپوزیشن جماعتیں تو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بجٹ تقریر کے دوران بجٹ پڑھے بغیر احتجاج کر رہی تھیں۔ اس وقت نوجوان وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ عوام کے دلوں میں گھر کر رہا تھا۔ جبکہ آج سے تین سال قبل جب تحریک انصاف نے صوبے کی باگ ڈور سنبھالی تو ملک تاریخ کے بد ترین مالی بحران سے دوچار تھا۔ وہی لوگ جو اس معاشی تباہی کے ذمہ دار تھے وہ نئی حکومت پر طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے تھے لیکن درویش صفت اور محنتی وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار دھن کے پکے نکلے اور بلوچوں کے روایتی عزم کے ساتھ سب کچھ ٹھیک کرنے کا ڈول ڈالا۔ ہاں وزیراعلیٰ نے اپنی ذاتی تشہیر سے ہر ہر موڑ پر گریز کیا۔ بس ان کا مطمح نظر اپنے قائد وزیراعظم عمران خان کی تفویض کردہ ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا تھا۔۔
تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے ماضی کے چھوڑے کینسر کے ساتھ اس وبا کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پنجاب واحد صوبہ تھا جس نے ان مشکل حالات میں 106 ارب روپے کا کوویڈ ریلیف پیکیج دیا۔ 56 ارب روپے کا تاریخی ٹیکس ریلیف دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے عوام پر کی گئی یہ سرمایہ کاری رائیگاں نہیں گئی۔ امدادی پیکیج سے مستفید ہونے والے لاکھوں خاندانوں کی دعاؤں سے آج معاشی ترقی کے تمام اشاریوں میں بہتری آئی۔ رواں مالی سال کے اختتام پرترسیلات زر 29 ارب ڈالر اور برآمدات25 ارب ڈالر کوپہنچ چکی ہوں گی۔ رواں مالی سال میں صوبائی محصولات کا ہدف 317 ارب روپے تھا۔ امید ہے کہ پنجاب حکومت مالی سال کے اختتام تک 359 ارب روپے اکٹھا کر لے گی جو پچھلے سال سے 13.1فیصد زیادہ ہے۔ 25 سے زائد سروسز پر ٹیکس کی شرح میں کمی کے باوجود پنجاب ریونیو اتھارٹی نے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جو پچھلے سال کی نسبت 42 فیصد زیادہ ہوگا۔ صوبے کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 560 ارب روپے کے ریکارڈ فنڈز مختص کئے گئے۔ ترقیاتی بجٹ میں ایک سال میں 66 فیصد کا غیر معمولی اضافہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں سوشل سیکٹر یعنی تعلیم اور صحت کے لئے205ارب 50کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 110 فیصد زیادہ ہیں۔ انفراسٹر کچر ڈویلپمنٹ کے لئے 145ارب40کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 87 فیصد زیادہ ہیں۔ صحت کے شعبے کیلئے مجبوعی طور پر370ارب روپے کے فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں۔وزیرخزانہ۔ ٭شعبہ صحت کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی بجٹ 96ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 182 فیصد زائد ہے۔ اہم ترین منصوبہ 80 ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے والا یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام ہے۔ جس سے پنجاب کی 100 فیصد آبادی کو علاج کی مفت اور معیاری سہولت دستیاب ہوگی۔ 31دسمبر 2021 تک پنجاب کی11کروڑ آبادی کی ہیلتھ انشورنس کی جائے گی۔ ترقیاتی پروگرام میں چلڈرن ہسپتال لاہور میں پیڈز برن سینٹر، ایک ہزار بستروں پر مشتمل جنرل ہسپتا ل لاہور، 200 بستروں پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال ملتان کا قیام اورنشتر ہسپتال ملتان میں سٹی سکین مشین کی فراہمی شامل ہیں۔ راجن پور، لیہ، اٹک، بہاولنگر اور سیالکوٹ میں 24ارب روپے کی لاگت سے جدید ترین مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال قائم کئے جائیں گے۔ اعلیٰ تعلیم تک رسائی بڑھانے کے لئے ہر ضلع میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اب تک 6 نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ 8 اضلاع اٹک، گوجرانوالہ، راجن پور، پاکپتن، حافظ آباد، بھکر، لیہ اور سیالکوٹ میں یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دے دی گئی ہے۔ 7 نئی یونیورسٹیاں قائم کرنے کی تجویز ہے جو بہا ولنگر، ٹوبہ ٹیک سنگھ، مظفر گڑھ، ڈی جی خان، قصور اور شیخوپورہ میں قائم کی جائیں گی۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کا ترقیاتی پروگرام الگ شائع کیا گیا ہے۔ آئندہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کیلئے 189 ارب روپے مختص کئے گئے جو پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 34 فیصد ہے۔ وزیراعلیٰ کے ’’سارا پنجاب، ہمارا پنجاب‘‘ کے نظریے کے تحت صوبے کے تمام اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کو پوری کی جا رہی ہیں۔
یہاں پنجاب کے پورے بجٹ کو بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں حقیقی تبدیلی کے لئے جب پنجاب کی قیادت ’وسیم اکرم پلس‘ کے سپرد کی تو ان کے وژن پر کئی حلقوں نے انگلیاں اٹھائیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ سردار عثمان بزدار ہی درست انتخاب تھا۔ انہوں نے نہ صرف صوبے کو سابق دور کی معاشی پسماندگی سے نکالا بلکہ ریاست مدینہ کے وژن کی تکمیل کی طرف بھی قدم بڑھایا۔ سیاسی مخالفین کے لئے مشورہ ہے پورا بجٹ سکون سے پڑھیں اور بتائیں کہ اور تبدیلی کس کو کہتے ہیں؟