• news

آئی ایم ایف کہتا ہماری مانو ورنہ پیسے نہیں دینگے، مذاکرات بے نتیجہ رہے: شوکت ترین

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین طلحہ محمود کی صدارت میں ہوا جس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ  پیپلزپارٹی کے دور میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اچھا پیکج دیا تھا لیکن اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ  حکومت جب آئی تو گروتھ کے باوجود مسائل بہت زیادہ تھے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 سے 20 ارب ڈالر تھا۔ مجموعی مالی خلا 28 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ ڈالر ختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ آئی ایم ایف اس بار پاکستان کے ساتھ فرینڈلی نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی دور میں آئی ایم ایف نے اچھا پیکج دیا تھا لیکن اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی۔ بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ  فنانس بل سے ان لینڈ ریونیو افسر کو گرفتاری کا حامل اختیار ختم کر دیا ہے۔ جو ٹیکس چور ہو گا اس کی گرفتاری کا فیصلہ وزیر خزانہ کی صدارت میں قائم تین رکنی کمیٹی کرے گی۔ ایف بی آر کا ہراسمنٹ کردار ختم کیا جائے گا۔ 75 لاکھ افراد غیر ٹیکس دہندگان کی معلومات حاصل کر لی ہیں جن کو جلد نوٹسز بھیجے جائیں گے اور  ٹیکس دہندگان کا ٹیکس آڈٹ بھی تھرڈ پارٹی سے کرایا جائے گا۔ انہوں نے  بتایا کہ آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ نہیں، آئی ایم ایف چاہتا ہے بجلی و گیس ٹیرف میں اضافہ سمیت تمام اہداف فوراً حاصل کیے جائیں جس سے مہنگائی بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود 13.25 فیصد پر گئی جس کے باعث ڈیٹ سروسنگ 3 ہزار ارب روپے ہوئی۔ وزیر خزانہ نے چھٹے اقتصادی جائزہ مذاکرات بغیر نتیجہ ختم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف ستمبر میں دوبارہ ملکی معیشت کا جائزہ لے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا اور آئندہ سہہ ماہی کی کارکردگی مانیٹر ہو گی، آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں قرض پروگرام کی اگلی قسط بھی تاخیر کا شکار ہو گی۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 2018ء میں مصنوعی شرح نمو دکھائی گئی لیکن اب حکومتی پالیسیوں کے باعث گزشتہ آٹھ ماہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس ہے اور مالی سال 2022-23 کے دوران 6 فیصد پر گروتھ کریں گے، اگلے 25 سے 30 سال مستحکم گروتھ کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ سالانہ 1 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آئی این پی کے مطابق  وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ حکومت آئی تو سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ معیشت اوور ہیٹ ہو چکی تھی۔ آئی ایم ایف اس دفعہ فرینڈلی نہیں تھا۔  انہوں نے کہا کہ یہ نہیں کرو گے تو ہم پیسے نہیں دیں گے۔  شوکت ترین نے کہا کہ اگر گروتھ  برقرار رکھنی ہے تو ہمیں ریونیو بڑھانے پڑیں گے۔  ڈسکوز کی کارکردگی ٹھیک کرنی ہے۔ گردشی قرضہ اگلے سال نہیں بڑھے گا اور اس میں کمی بھی آئے گی۔  وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے اقتصادی جائزہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی ا گلی قسط بھی تاخیر کا شکار کر دیا۔ میڈیا سے غیر رسمی بات چیت میں شوکت ترین نے کہا کہ غریبوں پر بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کا ستمبر میں جائزہ لے گا۔ آئی ایم ایف آئندہ دو سے تین ماہ کی کارکردگی مانیٹر کرے گا۔

ای پیپر-دی نیشن