• news

7ارکان کے داخلے پر پابندی، پھر ہنگامہ اجلاس ملتوی

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی‘ نمائندہ خصوصی) قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کا معاملہ طول پکڑ گیا۔ سپیکر نے ہنگامہ آرائی کرنے والے 7 ارکان کے ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کر دی  سپیکر سیکرٹریٹ  نے کہا کہ جن اراکین پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان‘ عبدالمجید خان‘ فہیم خان ‘ مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر‘ علی گوہر خان‘ چودھری حامد حمید اور پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اﷲ شامل ہیں۔ دوسری طرف بات ارکان کی معطلی سے بھی آگے بڑھ گئی۔ اپوزیشن نے اس پابندی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے ایوان کا ماحول بہتر بنانے اور اپوزیشن کو ایوان میں قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کے لئے حکومتی وزراء اور اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے ہمراہ سر جوڑ لئے۔ بدھ کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے انتہائی اہم اجلاس میں ایوان کی کارروائی چلانے کے لئے نئے اصول و ضوابط متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلی سطح کے  اجلاس میں حکومتی وزراء اور پارٹی عہدیداروں کے علاوہ اتحادیوں نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر خارجہ شاہ محمود، وفاقی وزراء شفقت محمود، اسد عمر اور قومی اسمبلی میں چیف وہیپ عامر ڈوگر شریک تھے۔ اجلاس اتحادی وزراء فہمیدہ مرزا، امین الحق اور طارق بشیر چیمہ بھی شریک ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے وزراء کو ہدایت کی کہ پارلیمنٹ میں سازگار ماحول بنانے کے لئے نئے اصول و ضوابط مشاورت سے تیار کئے جائیں۔ اجلاس میں بجٹ اجلاس کی حکمت عملی پر بھی مشاورت کی گئی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی میں نظم و ضبط کو ہر حال میں یقینی بنائیں۔ وزیراعظم نے اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے کے فوری طور نئے اصول و ضوابط اور قوانین لانے کی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ایوان میں جو کچھ ہوا اس پر دکھی ہوں۔  احتجاج کا حق سب کو ہے لیکن توہین اور ہلڑ بازی برداشت نہیں کریں گے۔ عمران خان نے سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت کی کہ ہنگامہ آرائی اور گالی گلوچ کرنے والے ارکان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر بلا تفریق کارروائی کریں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ارکان قومی اسمبلی نے ملاقات کی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ایوان میں پیش آنے والے واقعہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے سپیکر کو آئین اورقانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ہدایت کردی۔ ملاقات میں اسد قیصر نے پارلیمان میں افسوسناک واقعے سے وزیراعظم کوآگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان دونوں جانب سے ہنگامہ آرائی ہوئی۔ ایوان کا تقدس پامال کرنے والے اراکین کے خلاف بلا تفریق کارروائی کروں گا۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ اسد قیصر صاحب آپ ہمارے تحفظ میں ناکام رہے ہیں عمران خان کی قومی اسمبلی میں ہونے والے واقعات پر خاموشی ثابت کرتی ہے کہ یہ ساری ہلڑ بازی عمران خان کے ایماء پر ہورہی ہے۔ یہ بات قومی اسمبلی کے سپیکر کے نام قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور دیگر حزب اختلاف کے پارلیمانی لیڈران کے لکھے گئے خط میں کہی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سات اراکین پارلیمنٹ کے خلاف جو ایکشن لیا گیا اس کی تشہیر میڈیا کے ذریعے کی گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سپیکر کو ان واقعات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ جب تک سپیکر سب سے پہلے یہ تعین نہ کرلیں کہ ان واقعات کے ذمہ دار کون تھے حزب اختلاف کو سپیکر کی غیرجانبداری اور ان کے ایوان کو پارلیمانی روایات کے مطابق چلانے میں ناکامی پر اپوزیشن کو کوئی اعتماد نہیں۔ خط میں 15جون کے ہونے والے واقعات کو بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حزب اختلاف کے خلاف حکومتی اراکین کی جانب سے جو حملہ کیا گیا اس پر سپیکر نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ یہ شاید دنیا کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جب حکومتی اراکین نے سپیکر کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور حزب اختلاف پر حملہ کر دیا۔ سپیکر اس تشدد پر خاموش رہے اور اپوزیشن سے ہونے والی زیادتیوں پر اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ بجٹ سیشن کا تیسرا روز بھی ضائع کر دیا گیا۔ نااہل حکومت اور سپیکر کا رویہ باعث شرمندگی ہے۔ اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے 6 رکنی حکومتی کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ کمیٹی میں شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک‘ اسد عمر‘ علی محمد خان‘ عامر ڈوگر شامل ہیں۔ کمیٹی کا ایک رکن اتحادی جماعت سے لیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی آج اجلاس سے قبل اپوزیشن سے مذاکرات کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج طلب کر لیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی، اپوزیشن کی جانب سے ڈپٹی سپیکر اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحاریک عدم اعتما دکے علاوہ بجٹ سیشن پر مشاورت کی جائے گی۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر بھی مشاورت ہوگی۔ اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی پر بھی بات چیت ہو گی۔

اسلام آباد (نامہ نگار/ چوہدری شاہد اجمل) قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے مسلسل تیسرے روز بھی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے تقریر نہ کر سکنے، ایوان میں اراکین کی جانب سے بد نظمی‘ شور شرابے اور پھر ہنگامے کے باعث اجلاس آج دن 12بجے تک کے لیے ملتوی کردیا۔ اسد قیصر نے کہا کہ ایوان کو تب تک نہیں چلائوں گا جب تک حکومت اور اپوزیشن جماعتیں کوئی لائحہ عمل نہ بنالیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن بنچز سے ایک  رکن کی جانب سے حکومتی ارکان کی طرف بوتل پھینکی گئی۔ بوتل لگنے سے حکومتی رکن اکرم چیمہ زخمی ہوئے۔ بوتل ان کے چہرے پر آنکھ کے نیچے لگی۔ سپیکر کی طرف سے پابندی عائد  کے باوجود مسلم لیگ نون کے شیخ روحیل اصغر اور پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ ایوان میں موجود تھے۔ دونوں اراکین کو سارجنٹ ایٹ آرمز نے ایوان سے باہر نکال دیا۔ تاہم روحیل اصغر بعد میں واپس آ گئے۔ بدھ کو سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو  شہباز شریف نے  بجٹ پر اپنی نامکمل تقریر شروع کی جو ایک مرتبہ پھر مکمل نہ ہوسکی۔ جیسے ہی اجلاس شروع ہوا تو سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ 14اور 15جون کو ایوان میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اس حوالے سے کمیٹی کی تشکیل کے لئے چھ چھ نام دے۔ یہ کمیٹی مزید جو اقدامات تجویز کرے گی میں ان پر عملدرآمد کرائوں گا۔ اس طرح ایوان نہیں چلے گا۔ اسی دوران پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور شیم شیم کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے بھی ان کا ساتھ دیا جس پر سپیکر نے یہ کہا کہ جب تک دونوں طرف سے کمیٹی کے لے نام نہیں آتے میں اس وقت تک اجلاس ملتوی کرتا ہوں۔ اجلاس ملتوی ہوتے ہی بلاول بھٹو زرداری اور جے یو آئی کے مولانا اسعد محمود اپنے ارکان کے ہمراہ شہباز شریف کی نشست پر آگئے اور باہمی مشاورت کے بعد مزید تفصیلی مشاورت کے لیے لابی میں چلے گئے۔ اس کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر میاںشہباز شریف نے کہا کہ سپیکر صاحب آپ نے قانون کے مطابق ایوان کو چلانا ہے مگر کل عمران خان نیازی کے حکم پر جو گالی گلوچ کی گئی، روایات کی دھجیاں اڑائی گئیں، بدزبانی کی گئی اور ایسے الفاظ ادا کیے گئے جو زبان پر لانا مشکل ہے۔ آپ کا فرض تھا کہ آپ اس طوفان بدتمیزی کو روکتے۔ ہماری جماعت اور اپوزیشن کا یہ فیصلہ تھا کہ اگر یہاں پرامن طریقے سے اپوزیشن کی تقاریر کو سنا جائے گا تو ہم بھی تعاون کریں گے۔ لیکن دو دن گزر گئے  آپ نے نہیں روکا اور آج بھی وہی دھینگا مشتی جاری ہے۔ کل کو اگر قائد ایوان آئے اور اپوزیشن نے اس بات کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی توقع میں اور آپ رکھتے ہیں،  تو پھر مجھ سے آپ گلہ نہ کریں۔ سپیکر نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جس طرف سے بھی ہوا ہے اس کو روکا ہے اور میں یہ نہیں ہونے دوں گا، آپ قابل احترام ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر آپ اتنے بے بس ہیں تو مجھے اس پر افسوس ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن عطاء اللہ نے آوازیں بلند کیں اور اپوزیشن لیڈر کو چور چور کہنا شرو ع کر دیا تو اپوزیشن نے بھی نعرے بازی شروع کر دی۔ اسی دوران اپوزیشن کی جانب سے پھینکی گئی سینیٹائزر کی بوتل حکومتی رکن اکرم چیمہ کے چہرے پر آکر لگی اور وہ زخمی ہو گئے۔ سپیکر  نے سکیورٹی اہلکاروں سے کہا کہ دیکھیں یہ کس نے پھینکی ہے لیکن اس رکن کا پتہ نہ چلایا جا سکا۔ سپیکر نے کہا کہ جس کسی نے بھی یہ غلط چیز پھینکی ہے اس کے خلاف کارروائی کروں گا اور انہوں نے اجلاس کی کارروائی کو روکنے کا اعلان کرتے ہوئے 15منٹ کا وقفہ کر دیا۔ وقفے کے بعد سپیکر نے دوبارہ اجلاس شروع کیا اور کہا کہ میں نے اپوزیشن رہنمائوں سے رابطے کیے ہیں اور کہا ہے کہ ایوان میں ہو نے والے واقعات پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے تاکہ ان واقعات کا جائزہ لیا جائے اور مجھے پتہ چلا ہے کہ اپوزیشن اس کمیٹی کے لیے اپنے نام نہیں دے رہی ہے۔ بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ سپیکر اجلاس بلاتے ہیں پھر ملتوی کر کے چلے جاتے ہیں۔ وہی بتا سکتے ہیں کہ کیا قومی اسمبلی کا اجلاس ایسے ہی چلے گا۔ دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا باضابطہ رابطہ ہوا ہے۔ سپیکر اسد قیصر کی ہدایت پر رکن کمیٹی نے اپوزیشن ارکان سے ملاقات کی۔ حکومتی کمیٹی میں عامر ڈوگر‘ علی محمد خان‘ خالد مگسی‘ اقبال محمد علی شامل ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں سے ایوان کی کارروائی چلانے کیلئے ضابطہ اخلاق پر گفتگو کی۔ اپوزیشن رہنماؤں نے فوری بات چیت آگے بڑھانے سے گریز کیا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے کمیٹی کیلئے فوری نام دینے سے معذرت کر لی۔ اپوزیشن نے پارٹی قیادت سے مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا۔ حکومتی وفد نے کہا ایوان میں جمہوری رویے کی پاسداری کیلئے اقدامات چاہتے ہیں۔ پارلیمان کی کارروائی ضابطہ اخلاق کے تحت آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن