فلسطین کی امداد
پریذیڈنٹ آف بہبود ایسو سی ایشن سلمیٰ ہمایوں نے مجھے14جون کو میٹنگ میں مدعو کیا تو جب بھی سلمیٰ ہمایوں مجھے بلاتی ہیں تو میں اکثر میٹنگ اٹینڈ کرتی ہوں تو اس مرتبہ کرونا کی وجہ سے میٹنگ کافی عرصے کے بعد ہو رہی تھی۔ جب میں پہنچی تو میٹنگ شروع ہو چکی تھی۔۔۔بہبود کی سب ممبران وہاں موجود تھیں۔ تسنیم عامر اور سلمیٰ ہمایوں نے کافی مسائل پر بحث کی۔۔۔میں نے سلمیٰ سے پوچھا کیا کرونا کی وجہ سے بہبود کی کارگردگی میں کوئی مشکلات پیش تو نہیں آئیں۔۔۔وہ بتانے لگیں۔
کرونا وائرس کے باوجود انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر۔۔۔اپنی executive خواتین کے ساتھ مل کر انکم جنریشن،تعلیم اور ہیلتھ کا کام دکھی انسانیت کیلئے نیک جذبے کے ساتھ کرتی رہی ہوں۔ بقول سلمیٰ ہمایوں کے مشکلات درپیش ہوئیں مگر۔۔۔اللہ کی مہربانی سے سارے کام احسن طریقے سے ہوتے رہے ہیں اور ان شااللہ ہوتے رہیں گے۔ آج کی میٹنگ کا اصل مقصد یہ ہے کہ فلسطین بہن بھائیوں کو ایڈ بھیجنی ہے۔۔۔جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ لوگ اصل حقیقت نہیں جانتے نومبر1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کی قرارداد پاس کی۔ اس ریزولیوشن کے مطابق فلسطین میں عرب اور یہودی ریاستوں کے قیام کے ساتھ ساتھ پروشلم کے شہر کیلئے انٹرنیشنل کنٹرول کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ عربوں نے یہ قرارداد رد کر دی اور فلسطین کے یہودیوں نے اسے قبول کر لیا اور اب فلسطین میں ان کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔ حالانکہ عرب کے حکمران کہا کرتے تھے کہ اگر اسرائیل بنا تو ہم اسے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے ۔ جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی پھر صہیوئی جتھے عرب آبادیوں پر حملے کرنے لگے آدھے فلسطینی گائوں صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔ فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد آج بھی دمشق اور عمان کے پاس بدحالی میں رہ رہی ہے۔ قائداعظم کا بار بار خیال آتا ہے۔۔۔جو کہتے تھے مجھے کٹا پھٹا پاکستان بھی ملا تو میں قبول کر لوں گا۔ سچ ہے اگر پاکستان نہ بنتا تو ہماری حالت انڈیا کے بسنے والے مسلمانوں کی طرح ہوتی۔
1993میں اوسلو معاہدہ ہوا۔ یاسر عرفات نے مسلح جدوجہد کی۔ یاسر عرفات اور اسحاق رابین کو نوبل امن انعام تو مل گئے مگر فلسطین میں نہ امن آیا اور نہ ہی فلسطینیوں کو حق خوادار ادیت مل سکا۔
جتنے فلسطینی آج ایسٹ بینک یعنی دریائے اردن کے بائیں کنارے رہ رہے ہیں ان سے کہیں زیادہ پوری دنیا میں در بدر پھر رہے ہیں۔ سلمیٰ نے بڑے غم زدہ لہجے سے کہا کہ اس بار ہمیں چاہیے کہ ہم فلسطینیوں کی مدد کریں اور میں نے اپنی ممبران سے بھی درخواست کی تھی کہ فلسطینیوں کیلئے آپ چندہ دیں۔۔۔ ان کی حالت زار دیکھ کر ان فلسطینیوں کو ایڈ بھیجنا چاہتی ہوں۔ فلسطین کی امدا دکیلئے سب ممبران نے چندہ دیا ہے۔ خدا کرے ان لوگوں کی غربت بھوک ننگ ختم ہو جائے۔ اللہ کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔انکم جنریشن،ہیلتھ اور تعلیم کا کام بڑے احسن طریقے سے چل رہا ہے۔۔۔۔نیکی کے کام میں اللہ بھرپور مدد کرتا ہے۔۔
سلمیٰ ہمایوں اور اس کی executives بھرپور تعاون کرتے ہوئے باوجود اس وبا کے وہ بہبود کے چلانے میں ۔۔۔بڑی محنت کر رہی ہیںاورآجکل بہت سخت گرمی پڑ رہی ہے لیکن جن کے دلوں میں انسانیت کا جذبہ ہو تو گرمی ہو یاسردی کوئی معنی نہیں رکھتی۔دیکھا جائے تو یہ بہت اعزاز کی بات ہے اس افراتفری کے دور میں غریب کی زندگی کو خوشحال اوربہتر کرنے کیلئے سوچا جائے تو بہت بڑی بات ہے۔ میر ے خیال سے یہ انسانیت کا جذبہ خدا کی طرف سے ہی ان کے دلوں میں آیا جس سے سرشار ہو کر وہ نیک کام کر رہی ہیں۔ ۔۔ادارہ اسی طرح چل رہا ہے ۔۔۔میٹنگز میں شروع شروع میں لوگ کم آتے تھے لیکن اب کب تک کرونا کے خاتمے کا انتظار کریں لوگوں کی زندگیاں معمول پر آتی جا رہی ہیں۔۔۔خدا سے یہی التجا ہے کہ اس وائرس کا خاتمہ ہو جائے۔۔۔اور اللہ جن لوگوں سے ناراض ہے ان پر راضی ہو جائے۔(آمین)
٭…٭…٭