• news

انتخابی بل کی 13شقیں غیر آئینی الیکشن کمشن کا حکومت کو خط

اسلام آباد  (نمائندہ خصوصی)  الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی اصلاحات کے بارے میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں سمیت متعدد شقوں میں تر امیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے وزارت پارلیمانی امور کو لکھے خط میں کہا گیا ہے کہ اس خط کے توسط سے وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور کی طرف سے انتخابی پیش کئے جانے والے بل اور اس کی قومی اسمبلی کے معاملہ کی جانب  توجہ مبذول کرانا ہے ،بل میں الیکشن ایکٹ2017میں 57ترامیم تجویز کی گئیں ،اس بل پر الیکشن کمیشن کا موقف لیا گیا تھا جو قبل ازیں وزارت کو دیدیا گیا تھا جبکہ مجلس قائمہ کے اجلاسوں میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی موجود تھی ،تاہم مجلس قائمہ نے8جون کو الیکشن کمیشن کے نمائندے کو کمیشن کا موقف دینے کا موقع د ئیے بغیر بل کو منظور کر لیا ،بل وفاقی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی انتخابی اصلاحات کا  بڑا پیکج ہیں ،الیکشن کمیشن نے 57اصلاحات میں سے 35 سیکشنز میں ترمیم کی حمائت کی جبکہ قانون کے مسودہ کو بہتر بنانے کے لئے مذید’ ان پٹ‘ بھی دیا، بل میں کچھ ترامیم الیکشن کمیشن آئین سے متصادم سمجھتا ہے اور اس طرح کی ترامیم الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنے کے بھی مترادف ہیں، ان سے الیکشن کے انعقاد میں انتطامی ایشوز بھی  پیدا ہو سکتے ہیں ،الیکشن کمیشن کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ بل کو سینیٹ میں پیش کرنے سے قبل معاملہ وزیر اعظم عمران خان کے علم میںلایا جائے تاکہ سینٹ سے اس بل کو معتارف کرائے جانے کے دروان اس کی درستگی کے اقدامات ہو سکیں ، الیکشن کمیشن نے سیکریٹ (خفیہ) ووٹنگ کے بجائے اوپن ووٹنگ کا لفظ شامل کرنے کی بھی مخالفت کی۔الیکشن کمشن نے قرار دیا کہ مجوزہ الیکشن ایکٹ کی 13 شقیں آئین سے متصادم ہیں۔  الیکشن کمیشن نے کہا کہ اوپن ووٹنگ کا لفظ شامل کرنا آئین کے آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ اس حوالے سے صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس میں واضح رائے دے چکی ہے۔ خط میں کہا گیا کہ الیکشن الیکشن ایکٹ سیکشن 24 ، 26 ، 28 ، 29 ، 30 ، 31 ، 32 ، 33 ، 34 ، 36 اور 44 آئین کے آرٹیکل 219A اور 222 کے ساتھ متصادم ہے ۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ کے 17 میں انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ترمیم جو آبادی کے بجائے ووٹر لسٹوں کی بنیاد پر ہے کہ بارے میں نظرثانی کی بھی ضرورت ہے ۔خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51  قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کو آبادی کے لحاظ سے مقرر کرتی ہے ۔ اسی طرح سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سیکشن 122 میں خفیہ رائے شماری کی جگہ اوپن بیلٹ کا لفظ بھی آئین کے آرٹیکل 226  اور سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے فیصلہ سے متصادم ہے ۔علاوہ ازیں پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا تھاکہ پارلیمان اور آئینی ادارے کے درمیان عدم اعتماد پر تشویش ہے، الیکشن کمشن نے 72 حکومتی ترامیم میں سے 45 پراعتراضات اٹھائے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی 13شقیں آئین سے متصادم ہیں،  انہوں نے کہا کہ انتخابات کرانے والے ادارے نے آپ کی ترامیم کوغیرآئینی اور غیر قانونی قراردیا ہے، حکومت کوالیکشن کمشن اوراپوزیشن کے اعتراضات پرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ حکومت کی ساری توجہ گالم گلوچ پر ہے، حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئیں، حکومت کی ترامیم صرف 2023 الیکشن جیتنے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن