• news
  • image

درگذر کرنے والے(۶)

عبداللہ بن ابی سرح ایک ایسا شخص ، جس نے قبول اسلام کی سعادت حاصل کی لیکن پھر مرتد ہوگیا ، اور مدینہ منورہ سے واپس مکہ چلا گیا ، اس نے اسی پر اکتفاء نہ کیا،ارتداد کے بعدبارگاہِ نبوی اورمسلمانوں کے بارے میں مسلسل ہرزہ سرائی کا شیوہ بھی اختیار کیا، اس کانام بھی ان لوگوں کی فہرست میں تھا، جن کے خون کو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کیلئے مباح کردیاگیا ، جب عبداللہ کو اس حکم کی خبر ہوئی تو وہ حضور ﷺکے نرم خو، اورصلہء رحمی کی صفت سے معمور صحابی، حضرت عثمان غنی ؓکی خدمت میں حاضر ہوا ، اپنے افعال پر بڑی ندامت کا اظہار کیا، اور آپ سے امان کا طلب گارہوا، عبداللہ آپ کا دودھ شریک بھائی بھی تھا ، آپ نے اسے ندامت اورتوبہ میں مخلص پایا تو پناہ دے دی اورکہیں پوشیدہ کردیا ، جب حالات وواقعات کا تلاطم ذرا تھم گیا تو آپ اسے لیکر حضور سید عالم ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اورعرض کی ، یارسول اللہ ﷺ، اس نے اللہ سے اپنی فروگذاشت کی معافی مانگ لی ہے ، آقاء حضور بھی اسے معاف فرمادیں ، اسکے ارتداد اورپھر مسلسل ہرزہ سرائیوں کی وجہ سے آپ نے اس درخواست کو رد فرمایا، لیکن حضرت عثمان کے مزید اصرار پر اسے معافی عطاء فرمادی اوراس کو اپنی بیعت سے مشرف فرمایا، اب اللہ رب العزت نے عبداللہ ابن ابی سرح کے مزاج کی شقاوت کو سعادت سے بدل دیا، وہ بڑی خوش دنی اورذوق وشوق سے جہاد میں شریک ہوتے ، حضرت عمر بن العاص ؓنے جب مصر پر یلغار کی تو میمنہ کی کمان انہی عبداللہ بن ابی سرح ؓکے پاس تھی، اس جنگ میں اورمابعد معرکوں میں انھوںنے جرأت وبہادری اورجاں نثاری کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں، حضرت عمر ؓنے آپ کو معید مصرکے علاقے کا گورنر مقرر کردیا ،حضرت عثمان غنی ؓنے آپ کو تمام مصر کا گورنر بنادیا، آپکی زمانہ خلافت میں انھوں نے اندلس سمیت افریقہ کے بہت سے علاقوں کو فتح کیا، ۵۷یا ۵۹ہجری میںآپ نے اپنی دعائے نیم شبی میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کی، یااللہ ! میری زندگی کا آخری عمل میری صبح کی نماز کو بنادے ، چنانچہ فجر کا وقت ہوا تو آپ نے وضو کیا، ادائیگی سنت کے بعد فرض کی نیت باندھی ، نماز مکمل کرکے دائیں طرف سلام پھیرا، پھر جب بائیں طرف سلام پھیرنے لگے تو اللہ رب العزت کی انکی روح کو قبض فرمالیا، اورانکی دعاء کو مستجاب کردیا، ابوجہل کا سگا بھائی حارث بن ہشام المخزومی اورزبیر بن امیدبھی اپنے دل میں اسلام کے بارے میں شدید عداوت رکھتے تھے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انکے خون کو بھی مباح کردیا تھا، یہ دونوں حضرت علی المرتضیٰ ؓکی ہمشیرہ حضرت ام ہانی ؓکے پاس حاضر ہوتے اورامان کی درخواست کی انہوں نے انھیں امان دیدی تو حضور اکرم ﷺنے بھی انھیں معاف فرمادیا اوراللہ نے انھیں بھی اسلام پرثابت قدمی کی توفیق عطاء فرمائی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن