سر راہے
تھپڑ کے بعد اب طبیعت کیسی ہے؟ بچے کا فرانسیسی صدر سے سوال
محسوس ہوتا ہے فرانسیسی صدر کے ستارے ابھی تک گردش سے باہر نہیں نکلے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں کوئی نہ کوئی پتھر بردار ان پر سنگباری کرنے کو تیار ملتا ہے۔ کہیں تھپڑ کھانا پڑتا ہے تو کہیں زبانی نشتر سہنے پڑتے ہیں۔ اب تو میکرون جی کو اچھے بھلے لوگوں کی طرف سے جو کچھ سننے کو ملنا تھا وہ تو ملتا ہی ہے۔ سکول کے بچے بھی ان سے ایسے سوالات پوچھنے لگے ہیں جس پر ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘ والی مثال صادق آتی ہے۔ ایک علاقے کے دورے کے موقع پر ایک سکول کے شرارتی کہہ لیں یا سیانے طالب علم نے فرانسیسی صدر سے جب پوچھا کہ ’’ایک شہری سے تھپڑ کھانے کے بعد اب طبیعت کیسی ہے؟‘‘ تو میکرون پر کیا گزری ہوگی۔ یہ تو وہی جانتے ہوں گے بقول شاعر
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات سے
یہاں فرانسیسی صدر میکرون نے نہایت صبروضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بچے سے کہا کہ ’’یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی، تھپڑ تو سکول میں بھی مارنا اچھا نہیں ہوتا‘‘ اس طرح انہوں نے بچے کو آسان زبان میں درد دل سنا کر اپنا بوجھ بھی ہلکا کیا اور تھپڑ مارنے والے کی مذمت بھی کی کہ اس نے غلط کیا۔ یہ تو شکر ہے کہ یہ واقعہ فرانس میں ہوا تھا اور سوال پوچھنے والا بچہ فرانسیسی تھا۔ اگر ایسا کوئی واقعہ ہمارے ہاں پیش آیا ہوتا تو ذرا تصور کریں کیا ہوتا۔ تھپڑ مارنے والا کہاں ہوتا اور سوال پوچھنے والابچہ کہاں ہوتا۔ آنے والی اور موجودہ تاریخ اس بارے میں سکونت اختیار کرتی اور جاننے والے توبہ توبہ کرتے پھرتے۔
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ آزادکشمیر کے اہم رہنما میر اکبر الیکشن سے قبل پی ٹی آئی میں شامل
آزادکشمیر میں الیکشن دو چار ہاتھ کے فاصلے پر ہیں۔ اس وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فصلی بٹیرے اپنی پوری قیمت اور ٹکٹ ملنے کی آس پر اڑان بھرنا شروع ہوگئے ہیں۔ آزادکشمیر کی یہ روایتی سیاست ہے یہاں پاکستان میں برسراقتدار حکمران جماعت کو الیکشن میں کامیابی کی کلیدبردار جماعت تصور کیا جاتا ہے اور الیکشن قریب آتے ہی الیکشن لڑنے والے بٹیرے دھڑا دھڑ دوبارہ رونق اسمبلی بننے کی خاطر اس جماعت کی چھتری تلے جمع ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے ذرا بھر ندامت نہیں ہوتی۔ یہ نہایت بے شرمی سے …؎
سارے جہاں کو چھوڑ کر تجھ سے کیا ہے عشق
مت کر قبول، دادہی دے مرے انتخاب کی
کا راگ الاپتے ہوئے حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہیں۔ بعدازاں نظر التفات ملنے پر سیاسی وفاداریاں بدل لیتے ہیں۔ افسوسناک رویہ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کا ہے جو ایسے فصلی بٹیروں کو قبول کرلیتے ہیں اور انہیں ٹکٹ بھی جاری کرتے ہیں۔ کیا یہ ہارس ٹریڈنگ وہ روک نہیں سکتے۔ یہ گھوڑوں، گدھوں کی خرید و فروخت بند ہونے تک ہمارا سیاسی نظام اسی طرح گندا رہے گا۔ یہ سب جانتے ہیں مگر اسے ختم نہیں کرتے۔ یوں آج کے حکمران کل کی اپوزیشن اور کل کی اپوزیشن آج کی حکمران بنی بیٹھی ہوتی ہے تو تبدیلی کہاں سے آئے گی۔ نظام کب بدلے گا، چہرے بدلنے سے کرپٹ لوگوں کو خریدنے سے نظام کبھی نہیں بدلتا ۔
٭٭٭٭٭
عطیات کی رقم پر ٹیکس لگے گا: ایف بی آر
ہمارے ملک کے عوام بفضل خدا عطیات دینے والے ممالک کی فہرست میں ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہیںجس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے عوام بہت نرم دل اور خدا ترس ہیں مگر اس کے ساتھ ہی جب ہم اپنے ملک میں ٹیکس دینے والوں کی فہرست دیکھتے ہیں تو اس میں ہمارے ملک کے عوام بے شرمی کی حد تک سب سے کم ٹیکس دینے والے مالک کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہیں۔ یہ دوغلا پن حیرت انگیز ہے۔ عطیات دینے والے اپنی جائز و ناجائز آمدنی سے ٹیکس چوری سے جمع شدہ رقم سے کروڑوں نہیں اربوں روپے ہر سال خیراتی اداروں کو دیتے ہیں۔ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ حکومت کو بروقت ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں۔ بھلا ایسے ٹیکس چوروں کے عطیات کی مقبولیت کی کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے مگر یہ اپنی طرف سے بڑا اچھا نیک کام کررہے ہیں۔ اب اگر حکومت واقعی خیراتی اداروں کو ملنے والے بھاری عطیات پر ٹیکس لگا دے تو کم از کم اس طرح کچھ وصولی تو ہوگی، خزانے میں کچھ تو جمع ہوگا۔ اب تو یہ خیراتی ادارے بھی منظم مافیا بن چکے ہیں۔ درجنوں ادارے ایسی تنظیموں اور افراد کی کفالت کررہے ہیں جو غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ ملک دشمن عناصر کی پرورش کی جاتی ہے۔ ایسی پابندی ضروری ہے کہ ہر خیراتی ادارہ چندے اور عطیات کی پوری تفصیل کا اندراج کرے اور گورنمنٹ انکی پڑتال کرکے انہیں ٹیکس کے دائرے میں لائے۔ یہ کام اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان اداروں کے بھی لمبے ہاتھ ہیں۔ اب دیکھنا ہے ایف بی آر کس طرح اس اہم معاملے پر سٹینڈ لیتی ہے اور اس مافیا سے دو دو ہاتھ کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭
آر ایس ایس مسلمانوں کو چار شادیوں کی اجازت ختم کرانے کیلئے سرگرم
راشٹریہ سیوک سنگھ کو مسلمانوں کی ہمہ وقت فکر رہتی۔ پہلے گائوکشی پر پابندی پھر تین طلاقوں کا معاملہ اس کے بعد لوجہاد کے مسئلے پر آر ایس ایس نے باقی انتہاپسند ہندو جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر جس طرح طوفان اٹھایا اور بھارت کے عدالتی نظام کو دبائو میں لاکر من پسند فیصلے کرائے وہ بھارت کے جمہوری اور عدالتی نظام پر ایک بدنماداغ ہے۔ خود مسلمانوں میں تین طلاقوں پر مسئلہ پر کبھی مناظرے سے آگے بات نہیں بڑھی اس کو عدالت میں لے جا کر اس پر پابندی لگوائی گئی۔ گائے ذبح کرنے پر پہلے سے پابندی ہے وہ بھی آئینی اس کے باوجود مسلمانوں کو مارا جارہا ہے ان کی املاک لوٹی جارہی ہیں۔ لو جہاد یعنی مسلمان لڑکے سے ہندو لڑکیوں کی پسند کی شادی بھی جبراً عدالتی حکم کے تحت بند کرا دی گئی ہے۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا جوڑا کر لے تو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ اب آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا انتہاپسند ہندو جماعتوں کو مسلمانوں کی چار شادیاں بھی کھٹکنے لگی ہیں۔ وہ اس پرپارلیمنٹ میں قانون سازی کروا کے اسے بھی بند کرانے کے چکروں میں ہیں۔ تین طلاقوں کے مسئلہ پر اگر مسلمانوں نے متحد ہوکر آواز اٹھائی ہوتی تو آج چار شادیوں کے مسئلہ پر جو خالصتاً دین معاملہ ہے کسی کو آو از اٹھانے کی جرأت نہ ہوتی۔ حیرت ہے آر ایس ایس کو اس سے کیا مسئلہ ہے۔ کتنے مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ یہ شرح آٹے میں نمک کے برابر ہوگی مگر ہندو توا کی حامی جماعتوں کو خطرہ ہے کہ اس طرح مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر مسئلہ ہے تو ہندو بھی ایک سے زیادہ شادیاں کریں انہیں کس نے روکا ہے۔ کروڑوں ہندو بیویوں سے چھپ کر ناجائز تعلقات رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی گناہ سے بچ جائیں گے۔
٭٭٭٭٭