• news

بھارت نے افغان سر زمین ہمارے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کی : پاکستان 

انطالیہ‘ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ‘ اے پی پی‘ صباح نیوز‘ خصوصی نامہ نگار) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں رونما ہونے والی سیاسی صورتحال پر خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں تخریب کاری کے لیے استعمال کیا ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق افغان ٹی وی 'طلوع' کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد سیاسی صورتحال، افغان مفاہمتی عمل اور اس میں پاکستان کے کردار پر بات کی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کابل کی سرزمین کو پاکستان میں شر انگیزی کے لیے استعمال کرنے پر سخت تکلیف ہوتی ہے۔ وزیر خارجہ نے اس امر کی تردید کی کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں کارروائیوں کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال ہوگی۔ پاک افغان تعلقات کے حوالے سے انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان ایک خود مختار، جمہوری اور پرامن افغانستان کا خواہاں ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت جو صورت حال ہے اس کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان میں طالبان کے ٹھکانوں کی موجودگی کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت کی جڑیں افغانستان میں ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انٹرویو کے دوران افغانستان کے ساتھ شراکت کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم امن کے لیے شراکت داری پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے خطے میں امریکی افواج کی واپسی اور انتظامی امور پر افغان دھڑوں میں اختلاف کی بنیاد پر دوبارہ خانہ جنگی کے امکان کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن کی شراکت داری کے لیے تیار ہیں اور توقع ہے کہ لینڈلاک ملک میں ایک اور خانہ جنگی نہیں ہوگی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پرامن، محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے واحد راستہ افغانوں میں مفاہمت، بقائے باہمی اور بات چیت ہے۔ انہوں نے افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے تمام افغان رہنماؤں کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ ہم افغانستان میں امن اور اس کے استحکام کے خواہاں ہیں اور سمجھتے ہیں اس طرح علاقائی روابط کو فروغ ملے اور دونوں ممالک کے لیے معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اقتصادی سلامتی، سرمایہ کاری، دوطرفہ اور علاقائی تجارت، امن اور استحکام نہ صرف افغانستان بلکہ ہماری بھی خواہش ہے اور یہ ہمارے لیے بھی ناگزیر ہے۔ دریں اثناء شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ عالمی برادری افغان مسئلہ کے دیرپا سیاسی حل کیلئے کاوشیں تیز کرے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان‘ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے بھی کلیدی سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ عالمی برادری کی معاونت افغان مہاجرین کی باوقار‘ بروقت وطن واپسی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ دریں اثناء وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے انتالیہ میں ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاوش اوغلو کے ساتھ ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران  دو طرفہ تعلقات ،کثیرالجہتی شعبہ جات میں تعاون سمیت باہمی دلچسپی کے اہم علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا.وزیر خارجہ نے انطالیہ سفارتی فورم کے کامیاب انعقاد پر ترک ہم منصب کو مبارکباد دی۔ ترک وزیر خارجہ نے انطالیہ سفارتی فورم کے زیر اہتمام منعقدہ مذاکرے بعنوان "ایشیا و علاقائی روابط" میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے خطاب کی تعریف کی۔ اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انتالیہ فورم میں دنیا بھر سے اعلی سطحی قیادت نے شرکت کی جو اس فورم کی کامیابی کا مظہر ہے، دونوں وزرائے خارجہ کے مابین افغان امن عمل اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، خود مختار اور مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے،پاکستان، افغانستان سمیت خطے میں قیام امن کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ شاہ محمود قریشی نے امریکی ٹی وی کو بھی انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ترکی نے کابل ائرپورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے پر باضابطہ بات نہیں کی اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہو گا۔ ترکی کو اس معاملے پر افغان حکومت اور طالبان کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ کابل ائرپورٹ کی سکیورٹی کا انتظام سنبھالنے سے متعلق ترکی نے باضابطہ طور پر پاکستان سے کوئی بات چیت نہیں کی۔ افغان میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم کے اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینے پر ردعمل میں کہا کہ میرے خیال میں وزیراعظم کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ میڈیا کے چند حلقوں نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ افغان ٹی وی نے شاہ محمود قریشی سے سوال کیا کہ آپ اسامہ بن لادن کو شہید سمجھتے ہیں؟ وزیر خارجہ نے کچھ لمحے چپ رہنے کے بعد جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ افغان ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان کو مستحکم اور پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کو مطلوبہ علاقائی رابطہ کاری فراہم کرتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کو معاشی تحفظ، سرمایہ کاری اور علاقائی تجارت چاہیے تو یہ صرف امن کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ افغانستان میں امن اور استحکام نہ صرف افغانستان کی ضرورت ہے بلکہ یہ پاکستان کی بھی خواہش ہے کیونکہ پاکستان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر عام ہے کہ افغانستان میں پاکستان کی توجہ صرف ایک مخصوص دھڑے پر ہے لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ پاکستان سب کے ساتھ دوستی چاہتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ طالبان مذاکرات کار نے عوامی طور پر یہ کہا کہ وہ مشاورت کے لیے پاکستان جا رہے ہیں، ملا عبدالغنی برادر کئی مرتبہ پاکستان آئے ہیں اور وہ کوئٹہ بھی جاتے رہے ہیں، تو اس پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایسا 'امن عمل میں سہولت کاری' کے لیے ہوا ہے۔'وہ افغانستان میں ہیں۔ آپ کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ ہم مدد کرنے اور تعمیری کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اب بھی کئی لوگ موجود ہیں جن کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ پاکستان دیانت دار ہے، تعمیری کردار ادا کر رہا ہے اور مخلص ہے کیونکہ پاکستان کا مفاد مستحکم اور پرامن افغانستان میں ہے۔'افغانستان میں لوگ یہ کیوں نہیں سمجھ رہے؟ مجھے لگتا ہے کہ افغانستان کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کیونکہ افغانستان کے لوگوں نے بہت جنگ جھیل لی ہے اور وہ امن چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی سے پوچھا گیا کہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے بارے میں پالیسی تبدیل ہوئی ہے، تو کیا تبدیلی آئی ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اپروچ تبدیل ہوئی ہے اور پاکستان افغانستان کو مستحکم اور پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔انھوں نے کہا کہ پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ امن ایک فوجی حل کے ذریعے ممکن ہے مگر ایسا نہیں ہوا۔ہم ایک طویل عرصے سے کہہ رہے تھے کہ افغان مسئلے کا کوئی ملٹری حل موجود نہیں ہے۔ نئی اپروچ یہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ایک سیاسی سمجھوتے کی ضرورت ہے جس کی ہم بھی وکالت کر رہے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا افغانستان میں استحکام صرف طالبان حکومت کے زیر انتظام ہی ممکن ہے، تو انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ افغان عوام کریں گے۔ یہ افغانستان کے لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان پر کون حکومت کرے گا اور افغانستان کیسا سیاسی نظام چاہتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی انطالیہ میں ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاوش اوغلو کے ساتھ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، کثیرالجہتی شعبہ جات میں تعاون سمیت باہمی دلچسپی کے اہم علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ  خیال کیا گیا۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی ترکی کا تین روزہ دورہ مکمل کر کے واپس وطن روانہ ہوگئے۔ استنبول ہوائی اڈے پر ترک وزارت خارجہ کے سینئر حکام، ترکی میں پاکستان کے سفیر سائرس قاضی اور سفارتخانے کے سینئر افسران نے وزیر خارجہ کو الوداع کیا۔

ای پیپر-دی نیشن